سورة التوبہ - آیت 67

الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُم مِّن بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمُنكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَيَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ ۚ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ ۗ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ هُمُ الْفَاسِقُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” منافق مرد اور منافق عورتیں یہ ایک دوسرے سے ہیں وہ برائی کا حکم دیتے ہیں اور نیکی سے منع کرتے ہیں اور اپنے ہاتھ بند رکھتے ہیں وہ اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے بھی انہیں بھلا دیا یقیناً منافق نافرمان ہیں۔ (٦٧)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) مقصد یہ ہے کہ منافقین میں باہمی کوئی امتیاز نہیں ، سب برے ہیں ، عورت مرد یکساں طور پر اسلام کی مخالفت کرتے ہیں ، سب کا نصب العین یہ ہے کہ مسلمانوں میں برائیاں پھیلائی جائیں ، بات یہ ہے ، کہ ہر قوم میں ایک عنصر ایسے بدنیت اور دل کے کمزور لوگوں کا ہوتا ہے جو خبث باطن کو ظاہر نہیں ہونے دیتے ، اور اندر ہی اندر کوشاں ہر تے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح جماعت کو نقصان پہنچایا جائے ، اسلام جب پھیلا ہے ، تو وہ لوگ جو کھلے بندوں صف آراء نہیں ہوسکتے تھے ، منافق ہوگئے ، بظاہر مسلمانوں کے ساتھ رہے ، ان کی تقریبات اور عبادتوں میں شامل رہتے اور عوام کو دھوکا دیتے ، مگر موقع ملنے پر ہوشیاری سے اسلام کی مخالفت کرتے ، اللہ تعالیٰ کو یہ گروہ سخت ناپسند ہے ، کیونکہ اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ یا تو ایمان واسلام کی بابرکت دعوت کو قبول کرلو ، یا اپنے لئے کفر کو پسند کرلو ، بہرحال جو کچھ ہو ، کھلم کھلا ہو ، دھوکا اور فریب مردانگی نہیں ۔ حل لغات : بالمنکر : یعنی امر قبیح وتاشائستہ ونامشروع ، المعروف : بمعنی نکوئی ، فنسیھم کے معنی یہ ہیں کہ اللہ نے ان سے تغافل اختیار کرلیا ہے اور اب اللہ کی نظر عنایت سے محروم ہوگئے ہیں ، لعنھم : کے معنی نیکی اور ہمت سے دور کرنے کے ہیں اور نفرین کرنے کے بھی ہیں ۔