سورة التوبہ - آیت 39

إِلَّا تَنفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئًا ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اگر تم نہ نکلوگے تو وہ تمہیں دردناک عذاب دے گا اور تمہارے علاوہ اور لوگ لے آئے گا اور تم اس کا کچھ نہیں بگاڑسکوگے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔“ (٣٩)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تخلف گناہ ہے ! : (ف ١) غزوہ تبوک میں کچھ لوگ پیچھے رہ گئے تھے ، ان آیات میں ان کو مخاطب فرمایا ہے ، کہ جب جہاد کا نون عام ہوجائے تمہیں تخلف کی اجازت نہیں ، انداز بیان میں بہت زور ہے ، یوں سمجھ لیجئے ، خطبہ حرب ہے ، ہر شخص کو پکار کر کہا ہے کہ جہاد سے پیچھے نہ رہو ، جب اللہ تمہیں دعوت ایثار دیتا ہے ، تو تخلف کیسا ، کیا دنیا کی حقیر زندگی پر قانع ہوگئے ؟ کیا آخرت میں شہداء کے درجات سے آگاہ نہیں ؟ اس کے بعد یہ بتایا ہے کہ اللہ کی نصرت تمہاری زہین منت نہیں ، تمہیں معلوم ہے کہ جب رسول یکہ وتنہا مکہ سے نکل کھڑے ہوئے تھے ، اور تاریک غار کو انہوں نے اپنا مسکن بنایا تھا ، اس وقت ہم نے ان کی مدد کی ، اور کفار کی نظروں سے انہیں بچائے رکھا ۔ مقصد یہ ہے کہ اب بھی وہ رسول کی نصرت پر قادر ہے (آیت) ” ثانی اثنین “ سے مراد حضرت صدیق ہیں ۔ جو ہجرت میں آپ کے رفیق سفر تھے ، غار میں حضرت صدیق (رض) عشق نبوی کی وجہ سے گھبرا رہے تھے کہ کہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار کی گرفت میں نہ آجائیں ، اسی لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جوابا کہا (آیت) ” ان اللہ معنا “ یعنی اللہ کی نصرتیں ہمارے شامل حال ہیں ، تم بےفکر رہو ۔ بعض کوتاہ اندیشوں نے یہ سمجھا کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو اپنی گرفتاری کا ڈر تھا ، کمبخت یہ نہیں سوچتے کہ جس نے عمر (رض) پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رفاقت کی ، جو سب کچھ چھوڑ کر گھر سے نکلا ہے اسے اپنی نسبت کیا خوف ہو سکتا ہے اگر صدیق کی گھبراہٹ اپنی وجہ سے ہوتی تو کہا جاتا ، ان اللہ معک ، کہ گھبراؤ نہیں ، تمہارا خدا تمہارے ساتھ ہے ، کہا یہ گیا ہے کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے یعنی تجھ کو بنائے محبت میری گرفتار کا ڈر ہے اس کو دل سے نکال دے ،