أَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَّكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُم بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ أَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَوْهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
” کیا تم ان لوگوں سے نہ لڑوگے جنہوں نے اپنی قسمیں توڑ دیں اور رسول کو نکالنے کا ارادہ کیا اور انہوں نے ہی پہلے تم سے ابتدا کی کیا تم ان سے ڈرتے ہو اللہ زیادہ حق دار ہے کہ اس سے ڈرو اگر تم ایمان رکھنے والے ہو۔“ (١٣)
اسباب جنگ : (ف ١) ان آیات میں بتایا ہے کہ جب مشرکین کی ذہنیت یہ ہے کہ وہ تمہیں نقصان پہنچانے سے باز نہیں آتے جب کہ وہ کسی عہد کی رعایت نہیں رکھتے ، حدیبیہ کے عہد مصالحت کی انہوں نے مخالفت کی جگہ انہوں نے دارالندوہ میں بیٹھ کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ سے نکال دینے کی سازش کی ، اور جب کہ بدر میں انہوں نے چھیڑ کا آغاز کیا ، کرزبن جابر الفہری کو بھیجدیا ، کہ جا کر مدینے مسلمانوں کے اونٹ چرا لائے ، گویا تین سو میل کے فاصلہ پر بھی وہ مسلمانوں کو چین سے نہیں رہنے دیتے تھے ۔ اور جبکہ وقتا فوقتا انہوں نے اپنے طرز عمل سے دعوت دی ہے تو پھر اب تمہیں ان سے لڑنے میں تامل کیا ہے ۔ ؟ یعنی اب پیمانہ صبر لبریز ہوچکا ہے ، ہر رواداری اور ہمدردی کو بالائے طاق رکھدو ، اللہ نے یہ طے کرلیا ہے کہ کفر ذلیل ہو ، اور انہیں اپنے کئے کی سزا مل جائے ، یاد رکھو ، فتح وکامرانی تمہارے حصے میں آئے ، گی ، ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام یا تو جنگ کو جائز قرار نہیں دیتا ، اور یا پھر جب کہ ضرورت محسوس ہو ، بزدلی کو روا نہیں رکھتا ۔ ان آیات میں صاف صاف مذکور ہے کہ آغاز ان کی جانب سے ہے زیادتی انہیں کی ہے اسلام صرف بہادرانہ مدافعت چاہتا ہے ۔ حل لغات : نکثوا : نکث اور نقض ، مترادف لفظ ہیں ۔ ائمہ : جمع امام یعنی سردار یا لیڈر ۔