وَإِن تَدْعُوهُمْ إِلَى الْهُدَىٰ لَا يَسْمَعُوا ۖ وَتَرَاهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ
اور اگر تو انہیں سیدھے راستے کی طرف بلاؤ تو نہیں سنیں گے اور تو انہیں دیکھتا ہے کہ وہ تیری طرف دیکھ رہے ہیں حالانکہ وہ نہیں دیکھتے۔“ (١٩٨)
(ف ١) اس سے قبل بتوں کا ذکر ہے کہ ان میں کوئی خصوصیت نہیں وہ بھی تمہاری طرح عبودیت وتذلل کی زنجیر میں بندھے ہوئے ہیں اور پھر اس درجہ بےبس ہیں کہ چل پھر نہیں سکتے ، نہ ہاتھوں سے چھو سکتے ہیں اور نہ کان ہیں کہ سن کسیں ، اس کے بعد بت پرستوں سے کہا کہ تم ان کو مقابلے کے لئے آمادہ کرو ، اور دیکھو ، اللہ کی دوستی اور حمایت کس طرح روئے کار آتی ہے ، اس کے بعد کی آیات میں تعریض ہے کہ بتوں سے نصرت کی توقع نہیں ہو سکتی ، وہ نہ اپنی مدد کرسکتے ہیں اور نہ تمہاری اس کے بعد خطاب مشرکین سے ہے کہ اگر ان کو ہدایت کی طرف دعوت دی جائے ، تو غور وفکر کی غرض سے کان نہیں دھرتے ، باوجود ان حقائق کے بتوں کی بیچارگی اور بےبسی کے پھر بھی عقیدتمند ہیں ۔