سورة البقرة - آیت 104

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انظُرْنَا وَاسْمَعُوا ۗ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اے ایمان والو! تم اپنے (نبی) کو ” راعنا“ نہ کہو۔ بلکہ ” انظرنا“ کہو یعنی ہماری طرف دیکھئے اور سنتے رہا کرو اور کافروں کے لیے درد ناک عذاب ہے

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

حرمت رسول : (ف1) مسلمانوں کے نزدیک حب رسول (ﷺ) وہ گرانمایہ متاع ہے جس سے وہ کسی حالت میں بھی دست بردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا ، رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ والہانہ شیفتگی اصل ایمان ہے ، صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین جب دربار رسالت میں ہوتے اور مختلف مسائل کے سلسلہ میں حضور (ﷺ) کی توجہ عالی کو اپنی طرف مبذول کرانا ہوتا تو کہتے ﴿رَاعِنَا﴾کہ حضور (ﷺ) ہمارا بھی خیال رہے لیکن بدباطن اور بدعقیدہ یہودی مسلمانوں کی اس عقیدت کو برداشت نہ کرسکے ، انہوں نے از راہ تمسخر وتحقیر راعینا ، کہنا شروع کردیا ، جس کے معنی ان کے ہاں کم عقل کے ہوتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، تم اس موقع پر ﴿انْظُرْنَا کہاکرو ، یعنی دیکھئے تو ، اس میں انہیں خبث باطن کے اظہار کا کوئی موقع نہیں ملے گا ، اس آیت سے حرمت رسول (ﷺ) کی حفاظت مقصود ہے اور یہ تلقین ہے کہ کوئی ایسا کلمہ جو توہین کا موہم بھی ہو ‘ حضور (ﷺ) کے لئے استعمال نہ کرو ، ایسا نہ ہو کہ دلوں سے عقیدت مندی وارادت کے جذبات محو ہوجائیں اور بجائے ایمان کے نرا کفر ہمارے حصہ میں آئے ۔