سورة الاعراف - آیت 93

فَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ وَقَالَ يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ ۖ فَكَيْفَ آسَىٰ عَلَىٰ قَوْمٍ كَافِرِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

پھر وہ ان سے واپس پلٹا اور کہنے لگا اے میری قوم ! یقیناً میں نے تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے اور تمہاری خیرخواہی کی لہٰذا میں کفر کرنے والوں پر کیوں غم کروں۔“

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف1) آیات کا مقصد یہ ہے کہ رسول تباہی کی درخواست اس وقت اللہ سے کرتا ہے جبکہ پیمانہ صبر لبریز ہوجائے اور جب پوری مایوسی ہو ، جب وہ تمام احکام تم تک پہنچا چکا ہو ، ساری باتیں سنا چکا ہو ، اب بھی اگر تم نہ مانو ، تو تمہارے مٹ جانے پر قطعا افسوس نہیں ۔ انبیاء علیہم السلام بدرجہ غایت شفیق اور مہربان ہوتے ہیں ، آخرت تک ہوش میں ہوتے ، اور جاگتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح قوم میں اصلاح ہو اور دقت سے بچ جائے ، مگر جب قلب وجگر پر مردنی چھا جائے غفلت وجہالت آنکھوں کی بینائی ضائع کر دے ، تو پھر مہربانی کی کیونکر توقع کی جا سکتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ بھی نہیں چاہتے ، کہ اس کے پیارے بندے ایک دم زندگی سے محروم ہوجائیں ، اور نافرمانوں میں شمار ہوں ، اس لئے وہ رسولوں کے علاوہ مصیبتیں بھیجتا ہے ، مشکلات میں مبتلا کرتا ہے ، تاکہ دل پسیجیں ، متاثر ہوں ، اور طبیعتوں میں گداز پیدا ہو ، اور جب یہ ذرائع ناکام رہیں ، اور امید کی کوئی کرن باقی نہ رہے ، تو پھر ہلاکت کے سوا اور کیا چارہ ہے۔