سورة الاعراف - آیت 54

إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ ۗ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” بے شک تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا، پھر عرش پر قائم ہوا، وہ رات کو دن پر اوڑھا دیتا ہے جو تیز چلتا ہوا اس کے پیچھے چلاآتا ہے اور سورج اور چاند اور ستارے پیدا کیے، اس حال میں کہ اس کے حکم کے تابع ہیں سن لو پیدا کرنا اور حکم دینا اللہ ہی کا کام ہے، بہت برکت والا ہے اللہ جو سارے جہانوں کا رب ہے۔“

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

تکوین : (ف1) ایام سے مراد عرصہ ہائے دراز ہے کیونکہ عربی میں یوم کے معنی مدت مدید کے ہوتے ہیں ، قرآن کا عرف بھی یہی ہے ﴿وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ﴾۔ ایام عرب تعبیر ہے معرکے کے دنوں سے شاعر کہتا ہے ، ع لنا ایام غرطوال : غرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو چھ دن کے عرصے اور مدت میں پیدا کیا ہے ۔ ﴿اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ﴾، بطور صفت کے نہیں بلکہ شان کے ہے ، خدا کے لئے بہت شون واصول ہیں ، جن میں ایک شان استواء بھی ہے ۔ آیت کا مقصد توحید ہے یعنی تمہارا رب وہ ہے جس نے آسمان کی بلندیوں اور زمین کی پہنائیوں کو پیدا کیا ، چاند اور ستارے جس کے مسخر ہیں جس نے سب دنیا کو بنایا ہے ، اور جس کی حکومت قائم ہے ، وہ جو تمام دنیاؤں کا یکساں مربی ہے ، نہ وہ جن کو تم پوجتے ہو ، جو بےجان ہیں ، بےروح ہیں ، جن کا کائنات میں کوئی حصہ نہیں ۔ حل لغات: حَثِيثًا ۔ دوڑتا ہوا ، جلدی سے ۔