وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُوا ۖ قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ ۚ قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُم بِهِ إِيمَانُكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
جب ہم نے تم پر طور پہاڑ کو اٹھا کر تم سے وعدہ لیا اور حکم دیا کہ جو ہم نے تمہیں دیا ہے اس کو مضبوطی سے تھام لو اور توجہ سے سنو۔ انہوں نے کہا ہم نے سنا اور نہیں مانتے ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں میں بچھڑے کی محبت سرایت کرگئی۔ ان سے فرما دیجیے کہ تمہارا ایمان تمہیں برا حکم دے رہا ہے اگر تم ایمان والے ہو
(ف3) ﴿سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا ﴾کے معنی یہ نہیں کہ وہ ایک دم سنتے بھی تھے اور انکار بھی کردیتے تھے ، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ان کی ساری مذہبیت سماع تک محدود تھی ، جہاں عمل کا وقت ہوتا ، وہ یکسر عصیاں ہوجاتے ، ﴿سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا ﴾ ان کی ساری تاریخ مذہبیت کی پوری پوری اور صحیح تفسیر ہے ، ہمیشہ وہ باتوں اور موشگافیوں کے شائق رہے اور عمل سے بیزار ، مختصر سے مختصر لفظوں میں یہودیوں کی ذلت ونفسیات کا جو مرقع قرآن حکیم نے ان دو لفظوں میں کھینچا ہے وہ ناقابل اضافہ ہے ۔