يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ
اے اولاد یعقوب میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی اور میں نے تمہیں تمام دنیا پر فضیلت عطا فرمائی
(47۔53) افسوس اے بنی اسرائیل کی قوم تم ایسے نہ ہوئے حالانکہ میں (اللہ) نے تم پر ہر طرح سے احسان بھی کئے اور کچھ نہیں کرسکتے ہو۔ تو میرے احسان ہی یاد کرو جو میں نے تم پر کئے دنیا میں عزت دی کہ ملک کا حاکم بنایا اور دین میں بھی تم کو سب کا پیشوا بنایا۔ خلاصہ یہ کہ میں نے سب جہان کے لوگوں پر تم کو بزرگی دی کیا احسان کا شکریہ یہی ہے جو کررہے ہو۔ اب بھی باز آؤ اور اس دن سے ڈرو جس میں کوئی نفس کسی کے کچھ بھی کام نہ آئیگا۔ نہ اس کی تکلیف خود اٹھا سکے گا۔ اور نہ سفارش کرسکے گا اور اگر فرضاً کرے بھی تو اس کی سفارش بھی قبول نہ ہوگی اور اگر اپنی نیکیاں دیکر بھی دوسرے کو چھڑانا چاہے گا تو اس سے عوض بھی نہ لیا جائے گا۔ بلکہ جو کچھ دنیا میں اس نے کیا ہوگا اس کی پورری جز اسزا پاویگا نہ اس میں کسی طرح کی تخفیف ہوگی اور نہ کمی اور نہ ان مجرموں کو کسی قسم کی مدد پہنچے گی اور وہ وقت بھی یاد کرو جب ہم نے تم کو فرعونیوں یعنی اس سے اور اس کی فوج سے چھڑایا تھا جو ہر طرح سے تم کو بڑے بڑے عذاب پہنچاتے تھے تمہارے لڑکوں کو جان سے مارڈالتے اور لڑکیوں کو زندہ اپنی خدمت کرانے کو چھوڑتے۔ اس واقع میں اللہ کی طرف سے تم پر بڑا احسان ہے کہ ایسے ظالم کے پنجہ سے بچا کر اصل ملک میں تم کو پہنچا دیا اور راہ میں بھی تم پر ہر طرح سے احسان کئے جب تمہارے لئے ہم نے دریا کو پھاڑا پس تم کو ڈوبنے سے بچایا۔ اور تمہارے دشمن فرعونیوں کو تمہارے دیکھتے دیکھتے ہی اسی میں غرق کردیا اور اس نجات بدنی کے بعد ہم نے تمہاری روحانی نجات کے اسباب بھی مہیا کئے کہ حضرت موسیٰ کی معرفت تم کو کتاب دی اور ہدایت کی اور جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا تھا کہ ہم تجھ کو چالیس دن بعد تورات دیں گے۔ وہ تو تمہاری خاطر کوہ طور پر کتاب لینے گیا۔ پھر تم نے اس کے پیچھے بچھڑے کو اپنا معبود بنالیا لگے اس کی منت منائیں۔ سچ پوچھو تو تم بڑے ظالم ہو کہ ایک بے جان کو تمام جہان کا مالک سمجھ بیٹھے اور نہ جانا کہ یہ تو ہمارے ہی ہاتھوں کا بنا ہوا ہے باوجود ایسے قصور کے پھر بھی ہم نے بعد اس کے تم کو معاف کیا تاکہ تم شکر گزار بنو اور احسان یاد کرو جب ہم نے تمہاری ہی بھلائی کے لئے موسیٰ کو کتاب دی اور اس کے ثبوت کے لئے بڑے بڑے معجزے بھی دئے تاکہ تم دین کی سیدھی راہ پاؤ۔ اسی کتاب کی برکت تھی کہ تم نے بعض موقع پر اپنی جان دینے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ سر سید کی پانچویں غلطی : (دریا کو پھاڑا) اس آیت میں اللہ سبحانہ بنی اسرائیل کو وہ نعمت یاد دلاتا ہے جو تمام دنیا کی نعمتوں سے بڑھ کر تھی یعنی ان کے دشمن فرعون کی ہلاکت اور ان کی نجات پھر وہ بھی ایسے طرز سے کہ قدرت اللہ کے نشانات بینہ ظاہر ہوں وہی پانی جس میں سے بنی اسرائیل باوجود بے سامانی کے بچ کر صاف نکل گئے اسی میں فرعون مع اپنے جرار لشکر کے باوجود سامان کثیر کے ڈوبا اس پر (کہ بنی اسرائیل کی خاطر اللہ نے دریا پھاڑا تھا۔ جس میں سے وہ بسلامت چلے گئے اور فرعون اسی میں ڈوبایا گیا) قرآن کریم اور تورات دونوں متفق ہیں مگر سرسید احمد خاں بہادر نے اس میں بھی بہادری دکھائی کہ سرے سے منکر ہی ہو بیٹھے کہ قرآن کریم سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت موسیٰ کی خاطر دریا پٹھا تھا۔ بلکہ یہ تو ہمارے علما نے اپنی عادت قدیمہ کے موافق یہودیوں سے ایسی روایتیں لے کر قرآن کی تفسیر میں جڑی ہیں۔ حالانکہ نہ کوئی دریا پٹھا اور نہ کوئی خلاف عادت معجزہ ظہور میں آیا تھا۔ بلکہ اس دریا کی سمندر کی طرح عادت ہی تھی کہ مدو جزر چڑھنا اترنا آناً فاناً اس میں ہوا کرتا تھا۔ پس رات کو جب موسیٰ ( علیہ السلام) بنی اسرائیل کے سمیت وہاں سے گزرے تھے اس وقت خشک تھا اور جب فرعون گزرنے لگا تو اتفاقاً چڑھ گیا (جلداوّل صفحہ ٩٩) چونکہ اصل وجہ انکار سید صاحب کی اس واقعہ سے یہ ہے کہ یہ واقعہ خرق عادت ہے اس لئے ہم سب باتوں سے پہلے خرق عادت کے امکان یا محال ہونے پر گفتگو کرتے ہیں تاکہ سید صاحب کی بناء فاسد علی الفاسد خوب واضح ہوجائے۔ خرق یا خلاف عادت پر سپر نیچرل اس کو کہتے ہیں جو قوانین مروجہ کے خلاف ہوجیسے پانی کا نیچے کی طرف کو جانا ایک قانون مروج ہے اگر پانی اوپر کی طرف کو جائے یا باوجود نیچے جگہ ہونے کے ٹھیر جائے تو خلاف عادت کہا جائے گا یا مثلاً آگ کا کام جلانا ہے اگر بلا مانع ظاہری نہ جلائے تو خرق عادت ہوگا۔ بحث اس میں ہے کہ یہی مروجہ قوانین قدرتی قانون ہیں یا ان کے سوا اور بھی ہیں؟ کچھ شک نہیں کہ اللہ کے جتنے کام ہیں سب اپنے اپنے اسباب سے وابستہ ہیں۔ مگر ان سب قوانین پر کوئی فرد بشر مطلع نہیں ہوسکتا۔ مثلاً پیدائش کے متعلق اس کا قانون ہے کہ بکری کا بچہ مثلاً چار ٹانگ اور دو سینگ اور دو آنکھوں والا ہوتا ہے۔ مگر باوجود اس کے لکھنؤ کے عجائب خانہ میں بکری کے بچہ کی شبیہہ ایسی ملتی ہے جس کی ایک ہی آنکھ ماتھے پر ہے اور بس۔ تو کیا یہ خلاف قانون ہے؟ نہیں اس کے لئے بھی ضرور کوئی قانون ہوگا۔ مگر ہمیں اس کی اطلاع نہیں۔ ٹھیک اسی طرح ایسے امور جو حضرات انبیاء علیہم السلام سے بطور معجزہ کے ظاہر ہوتے ہیں ان کے لئے بھی مخفی اسباب ہوتے ہیں ان اسباب میں سے نبوت یا رسالت کا مجہول الکیف تعلق بھی ایک سبب ہے جس کی کیفیت ہماری سمجھ سے بالا ہے مگر ہے۔ حقیقت میں تو وہ اپنے ہی اسباب سے ظاہر ہوتے ہیں لیکن چونکہ ان اسباب پر عامہ مخلوق کو اطلاع نہیں ہوئی بلکہ عوام کے نزدیک جو ان افعال کے اسباب ہیں ان کے خلاف یہ امور ہوتے ہیں اس لئے ان کو خرق عادت یا سپر نیچرل کہا جاتا ہے ورنہ حقیقت میں سپر نیچرل نہیں ہوتے۔ بلکہ عین نیچرل ہوتے ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ دنیا کے معمولی قانون مروج کے خلاف بھی ہونا کوئی محال امر نہیں۔ اسی کا نام معجزہ ہے کہ ایک امر خلاف قانون مروجہ مگر ممکن بالذات کا وقوع بلا اسباب مدعی نبوت سے وقوع پذیر ہو۔ ایسے امر ممکن بالذات کی اگر کوئی مخبر صادق خبر دے تو اس کے تسلیم کرنے میں چون و چرا کرنا فضول ہے۔ پس بعد اس تمہید کے ہم یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ یہ معجزہ عبور موسیٰ کا جو ایک امر ممکن ہے واقع بھی ہوا ہے یا نہیں اور اس کے واقع ہونے کو قرآن کریم نے بیان کیا ہے یا نہیں اور تورٰیت میں بھی جو اس زمانہ کے واقعات کی مخبر ہے جس کو سید صاحب بھی غیر محرف مانتے ہیں اس امر کا ثبوت ہے یا نہیں۔ پس سنئے ! پہلی آیت سورۃ بقرہ میں ہے جس کے الفاظ شریفہ یہ ہیں وَاِذْ فَرَقْنَا بِکُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰکُمْ وَاَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ۔ اس آیت کا سیاق ہی بتا رہا ہے کہ نبی اسرائیل پر کسی بڑے احسان کا جتلانا منظور ہے جب ہی تو فرما دیا کہ ہم نے تمہارے لئے دریا کو پھاڑا اور تمہیں بچایا اور تمہارے دشمن کو تمہارے دیکھتے دیکھتے غرق کیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ کچھ ایسے طور سے ہوا ہوگا جسے احسان بھی کہہ سکیں۔ افسوس کہ سید صاحب اس سیاق کلام سے غافل ہو کر کہتے ہیں کہ :۔ ” اس آیت میں کوئی ایسا لفظ نہیں جس سے دریا کے جدا ہوجانے یا پھٹ جانے کو خلاف قانون قدرت قرار دیا جا سکے“ صفحہ ٧٦ حالانکہؔ یہ بات صریح لفظوں میں ہے کہ تمہارے لئے ہم نے دریا کو پھاڑا اور تمہیں نجات دی۔ اور تمہارے دشمن فرعون کو اس میں غرق کیا اور اس کے سباق سے احسان جتلانا مفہوم ہے مگر اس بلاوجہ انکار کا علاج کیا۔ بھلا صاحب یہ لفظ نہ سہی جس سے خلاف قانون قدرت پھٹنا معلوم ہو۔ لیکن اتنا تو معلوم ہوتا ہے کہ اس فعل سے غرض بنی اسرائیل کی نجات اور فرعون کی ہلاکت تھی پس اس سے بھی آپ کے جوار بھاٹ کو کسی قدر صدمہ پہنچے گا۔ کیونکہ جوار بھاٹ کی نسبت جو ہمیشہ سے ہوتا آیا تھا ایسا فرمانا کہ ہم نے تمہارے لئے کیا اور اس کرنے سے تمہاری نجات علت غائی تھی بالکل بے معنے ہے اور بنی اسرائیل پر کوئی احسان نہیں۔ دوسری آیت سورۃ شعرا میں ہے۔ اَوْحَیْنَآ اِلٰی مُوْسٰٓی اَنِ اضْرِبْ بِعَصَاکَ الْبَحْرَ فَانْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ اس آیت میں صاف ارشاد ہے کہ ہم نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ تو اپنی لکڑی دریار پر مار پس وہ اس کے مارنے سے ایسا پھٹ گیا کہ اس کا ایک ایک ٹکڑا بڑے بڑے ڈھیر کی طرح ہوگیا۔ باوجودیکہ یہ آیت نہایت ہی اپنے معنے (دریا کے پھٹنے) میں صاف تھی مگر سید صاحب نے اس کو بھی ٹیڑھی گھیر بنانا چاہا چنانچہ فرماتے ہیں کہ ” اس آیت میں ضرب کے معنے زدن کے نہیں بلکہ رفتن کے ہیں اور البحر پر فی محذوف ہے پس صاف معنے یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو کہا کہ اپنی لاٹھی کے سہارے سے سمندر میں چل۔ وہ پھٹا ہوا یا کھلا ہوا ہے یعنی پایاب ہو رہا ہے“ (صفحہ ٨٨ جلد اوّل) یہ توجیہ سید صاحب کی دیکھ کر مجھے ایک حکایت زمانہ طالب علمی کی یاد آئی جس سے یہ ثابت ہوگا کہ ایسے حذف محذوف نکالنا بالکل اس کے مشابہ ہے کہ ملا آں باشد کہ چپ نشود۔ جن دونوں میں ” فیض عام“ کانپور میں پڑھتا تھا ایک طالب علم سے جو میرے ساتھ صدرا وغیرہ میں شریک تھے میں بھولے سے پوچھ بیٹھا کہ اِنَّہٗ تَعَالٰی جَدُّ رَبِّنَا کے کیا معنے ہیں وہ بولے کہ بڑا ہے دادا ہمارے رب کا۔ میں نے کہا باپ ہی نہیں۔ تو دادا کہاں؟ فرمانے لگے کہ بڑے کے معنے ہیں بہت بلندی پر یعنی معدوم اور یہ دلیل انی ہے کہ باپ ہی نہیں۔ آخر کار میں خاموش ہوگیا۔ اسی طرح سید صاحب کی عادت شریفہ ہے کہ کیسی ہی صریح عبارت دکھلائو۔ خواہ مخواہ اسے ٹیڑھی بنائیں گے۔ بھلا صاحب ! کسی شعر عرب کا بھی حوالہ دیا؟ یا کسی مستند شخص کے قول سے استشہاد بھی کیا؟ اگر فرما دیں کہ حروف جارہ کا حذف جائز ہے تو گذارش ہے کہ ہمشہ نہیں ورنہ فرمایا کہ صلی فی المسجد سے فی کو حذف کر کے صلی المسجد کہنا بھی جائز ہے یا دعالہ سے جارہ کو محذوف کر کے دعاہ کہنا۔ پھر اس سے وہی معنے سمجھنا جو دعالہ کا مفہوم ہیں درست ہے؟ اصل یہ ہے کہ آپ چونکہ ہمیشہ سے بےدلیل کہنے کے عادی ہیں۔ اس لئے ایسی باتیں آپ سے کچھ بعید نہیں جنتی چاہیں کہے جائیں مثل مشہور ہے جہاں سو وہاں ایک پر سو۔ ہاں ایک دلیل آپ کی قابل ذکر ہے جہاں فرمایا کہ :۔ ” فی کے حذف ہونے کا قرینہ یہ ہے کہ اسی قصہ کو سورۃ طہٰ میں فاضْرِبْ لَھُمْ طَرِیْقًا فِی الْبَحْرِ یَبَسًا فرما پس ایک جگہ لفظ فی مذکور ہے تو یہی قرینہ باقی مقامات میں اس کے محذوف ہونے کا ہے۔ “ پھر کہا کہ :۔ ” شاہ ولی اللہ صاحب نے اس آیت کا یہ ترجمہ کیا ہے ” پس برو برائے ایشاں درراہ خشک“ یعنی شاہ صاحب نے ضرب کے معنے زون کے نہیں لئے رفتن کے لئے ہیں۔“ (جلد اوّل صفحہ ٩٨) میں کہتا ہوں اس دلیل سے سرسید کا مطلب ثابت نہیں ہوتا اس لئے کہ یہ کوئی قاعدہ نہیں کہ ایک جگہ اگر حرف جر مذکور ہو تو دوسری جگہ بھی اسی کو قرینہ بنا کر محذوف مانا جائے۔ یہ جب ہے کہ طریق بیان اور مطلب ایک ہو۔ الا اگر مطلب بدل جائے تو کلا (ہرگز نہیں) مثلاً ایک جگہ دعاہ ہے دوسری جگہ دعالہ ہو تو یہاں حرف جر کا مذکور ہونا پہلے میں اثر نہ کرے گا۔ اسی طرح اَنِ اضْرِبْ بِعَصَاکَ الْبَحْرَ میں راستہ بنانے کا بیان ہے اور فاضْرِبْ لَھُمْ طَرِیْقًا فِی الْبَحْرِ میں اس راہ چلنے کا حکم ہے چانچہ شاہ صاحب کا ترجمہ ہی اس کا محاکم بناتا ہوں جس سے یہ بھی ثابت ہوجائے گا کہ آپ نے جو ترجمہ نقل کیا ہے وہ غلط ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں ” بس بساز برائے ایشاں راہ خشک در دریا“ دیکھو حمائل مطبوعہ انصاری دہلی اور ایک نسخے میں تو بالکل ہی آپ کے دعویٰ کی تردید ہے۔ کہ شاہ صاحب نے ضرب کے معنے رفتن کے کئے ہیں ” بزن برائے ایشاں“ دیکھو حمائل مطبوعہ ہاشمی میرٹھ۔ ہاں ہم انصاف سے کہتے ہیں کہ آپ کا منقولہ ترجمہ بھی ایک قرآن مطبوعہ فارقی دہلی میں ہے۔ لیکن دو نسخے اس سے مخالف ہیں اس مخالفت کا فیصلہ اگر کثرت نسخ کے اعتبار سے آپ منظور کریں تو ہمیں مفید ہے ورنہ اذا تعارضا تساقطا تو نتیجہ لازمی ہے پس آپ کا دونوں آیتوں کے ملانے سے ضرب کے معنے دونوں جگہ چلنے کے لینا اور فی کو محذوف ماننا ہرگز صحیح نہیں دونوں آیتیں اپنا اپنا مطلب ادا کرنے میں بالکل واضح ہیں اَنِ اضْرِبْ والی آیت کے صاف معنے یہ ہیں کہ دریا کو اپنی لکڑی سے مار تاکہ وہ راہ بن جائے اور فاضْرِبْ لَھُمْ طَرِیْقًا کے معنے ” بنا ان کے لئے دریا میں خشک راستہ“ ہیں۔ پس کچھ ضرور نہیں کہ ضرب کے معنے دونوں جگہ چلنے کے لئے جاویں یا ایک جگہ لینے سے دوسری جگہ لینے ضرور ہوجائیں۔ ہر ایک آیت اپنے اپنے معنے بتلانے میں جدا گانہ ہے پھر آپ نے جو فانفلق کی توجیہ میں تحریر یا تحریف فرمائی ہے انصاف سے کہیں وہ اس قابل ہے کہ عالم کی زبان سے نکلے۔ چونکہ آپ کی اس موقع کی ساری در افشانی اہل علم کے ملاحظہ کے قابل ہے اس لئے میں اسے من وعن نقل کرتا ہوں (قولہ) ” انفلق ماضی کا صیغہ ہے اور عربی زبان کا یہ قاعدہ ہے۔ کہ جب ماضی جزا میں واقع ہوتی ہے تو اس کی دو حالتیں ہوتی ہیں۔ اگرچہ ماضی اپنے معنے پر نہیں رہتی بلکہ شرط کی معلول ہوتی ہے۔ تو اس وقت اس پر ” ف“ نہیں لاتے اور جب کہ وہ اپنے مضمون پر باقی رہتی ہے اور جزا کی معلول نہیں ہوتی۔ تب اس پر ” ف“ لاتے ہیں۔ جیسے کہ اس مثال میں ان اکرمتنی فاکر متک امس یعنی اگر تعظیم کرے گا تو میری تو میں تیری تعظیم کرچکا ہوں۔ اس مثال میں جزا (یعنی گزشتہ کل میں تعظیم کا کرنا) شرط کا معلول نہیں ہے کیونکہ وہ اس سے پہلے ہی ہوچکی تھی۔ اسی طرح اس آیت میں سمندر کا پھٹ جانا یا زمین کا کھل جانا ضرب کا معلول نہیں ہے۔ کیونکہ وہ اس سے پہلے ہی ہوچکی تھی۔ اسی طرح اس آیت میں سمندر کا پھٹ جانا یا زمین کا کھل جانا‘ ضرب کا معلول نہیں“ (جلد اوّل صفحہ ٨٢) سید صاحب کیا فرماتے ہیں۔ کہاں شرط اور جزاء کا مسئلہ اور کہاں یہ صورت اور آپ کی کہاں مثال۔ سچ ہے ؎ بنے کیونکر کہ ہے سب کار الٹا ہم الٹے بات الٹی یار الٹا بقول شیعہ اہل بیت معصوم تھے مگر آج تو آپ نے ان کی خوب ہی تغلیط کی۔ اوّل ! تو یہ قاعدہ ہی غلط ہے کہ ماضی اپنے معنوں میں رہ کر جزا واقع ہوسکتی ہے۔ بلکہ وہ دلیل برجزا ہوتی ہے جزا نہیں۔ آپ کوئی مثال ایسی نہ بتلا سکیں گے جس میں ماضی اپنے معنوں میں رہ کر جزا واقع ہوتی ہو۔ پس آپ کا مثال میں ان اکرمتنی فاکرمتک امس پیش کرنا بھی غلط ٹھیرا۔ اس لئے کہ اس مثال میں بھی فاکرمتک امس جزا نہیں بلکہ دلیل برجزا ہے جیسا کہ متنبی کے اس شعر میں ؎ ان تفق الانام وانت منھم فان المسک بعض دم الغزالٖ یا آیت کریمہ اِنْ یَّسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ اَخٌ لَّہٗ ہاں ان معنوں سے صحیح ہوسکتی ہے جو ہم نے حاشیہ پر لکھے ہیں ۔ مگر ان کو یہاں علاقہ ہی نہیں۔ سید صاحب اس طرح کے ہاتھ پائوں مارنے سے بجزا اس کے کہ اہل علم میں ہنسی ہو کچھ فائدہ نہیں۔ عالموں سے غلطی بھی ممکن ہے مگر عالم کا فرض ہے کہ کہتے ہوئے اپنی تقریر کو مخالفانہ نظر سے دیکھے۔ ورنہ محبت تو ایسی بلا ہے کہ اپنا کانا بیٹا بھی سنوانکھا دکھاتی ہے۔ ہاں ایک توجیہ آپ کی عبارت کی ہوسکتی ہے شائد آپ نے اپنے جی میں وہی رکھی ہو جو (بقول نواب محسن الملک مرحوم) اللہ کو بھی نہ سوجھی ہو۔ کہ تقدیر کلام یوں ہے اَنِ اضْرِبْ بِعَصَاکَ الْبَحْرَانْ ضَرَبْتَ نَجَوْتَ فَانْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ۔ یعنی (بقول آپ کے) ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام) سے کہا کہ دریا میں اپنی لکڑی کے سہارے چل۔ اگر چلے گا تو بچ جائے گا اس لئے کہ وہ دریا کھلا ہوا اور پایاب ہے پس اس صورت میں فانفلق اگرچہ جزا نہیں۔ مگر دلیل بزجزا جسے مجازاً جزا کہیں تو ہوسکتا ہے۔ سو اگر یہی آپ کی مراد ہے تو شاباش میرے نام ہے جس نے آپ کے مدعا کو جو دربطن قائل کا مصداق تھا ظاہر کیا۔ مگر اس پر بھی گذارش ہے کہ اوّل یہ بتلا دیں کہ اگر اتنی بڑی عبارت کا حذف جائز رکھا جائے اور ہر جگہ اس ٹوٹے پھوٹے ہتھیار کو پیش کیا جائے تو کوئی مسئلہ بھی قرآن کریم کا ثابت ہوسکتا ہے؟ ہر ایک جگہ یہی قاعدہ جاری ہوگا۔ کہ یہ حذف ہے وہ حذف ہے۔ حتی کہ مطلب ہی حذف ہے۔ دومؔ یہ کہ سیاق کلام کے بھی مخالف ہے کیونکہ سیاق سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلام بطور نتیجہ کے ہم کو سنایا جاتا ہے اسی لئے آگے کے جملوں کو اس پر عطف کرتے گئے ہیں چنانچہ فرماتے ہیں فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ وَاَزْلَفْنَا ثَمَّ الْاٰخَرِیْنَ وَاَنْجَیْنَا مُوْسٰی وَمَنْ مَّعَہٗٓ اَجْمَعِیْنَ ثُمَّ اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِیْنَ اور سب سے اخیر کیا ہی مختصر نتیجہ نکالا ہے۔ اِنَّ فِیْ ذَلٰکِ لَاٰیَۃً وَّمَا کَانَ اَکْثَرُھُمْ مُّؤْمِنِیْنَ یعنی موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کے بچانے اور فرعون کے غرق کرنے میں بڑی نشانی ہے۔ کہ اللہ کی قدرت کاملہ اور تصرف فی الامور کا پورا ثبوت ملتا ہے۔ لیکن بہت سے لوگ (مثل سید صاحب کے) اسے نہیں مانتے پس جب یہ کلام بطور نتیجہ کے ہمیں سنایا جاتا ہے تو فانفلق سے لے کر اخیر تک حضرت موسیٰ کو خطاب نہیں اور کسی طرح نہیں ہوسکتا۔ تیسری آیت سورۃ طہٰ کی ہے اَوْحَیْنَآ اِلٰی مُوْسٰٓی اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْ فَاضْرِبْ لَھُمْ طَرِیْقًا فِی الْبَحْرِ یَبَسًا یعنی موسیٰ کو ہم نے پیغام بھیجا کہ تو ہمارے بندوں کو رات ہی سے لے چل پھر ان کے لئے دریا میں راستہ خشک بنا۔ یہ آیت بھی جتلا رہی ہے کہ اس دریا سے عبور کرنے میں حضرت موسیٰ کے فعل کو بھی دخل ہے۔ ورنہ حضرت موسیٰ کو کیوں حکم ہوتا کہ تو ان کے لئے خشک راستہ بنا۔ غضب یہ کہ اس آیت کو سید صاحب اپنے دعوٰے اَنِ اضْرِبْ بِعَصَاکَ الْبَحْرَ میں حذف فی کا قرینہ بتاتے ہیں جس کا جواب ہم پہلے دے آئے ہیں۔ پس بعد اللُّتیا والّٰتِی ہم اس دعویٰ پر کہ حضرت موسیٰ کا عبور خرق عادت تھا جو قرآن کی صریح الفاظ سے ثابت ہوتا ہے تورٰیت سے بھی جسے سید صاحب غیر محرف لفظی مانتے ہیں۔ شہادت پیش کرتے ہیں تاکہ سید صاحب کہ حسب عادت قدیمہ کوئی عذر نہ رہے کہ کتب سابقہ میں اس کا ذکر نہیں اس لئے قابل تاویل ہے۔ تورٰیت کی دوسری کتاب سفر خروج ١٤ باب ١٩ آیت سے اخیر تک مذکور ہے۔ ” اللہ کا فرشتہ جو اسرائیلی لشکر کے آگے چلا جاتا تھا پھرا اور ان کی پشت پر آرہا اور بدلی کا وہ ستون ان کے سامنے سے گیا اور ان کی پشت پر جا ٹھہرا اور مصریوں اسرائیلی لشکر کے بیچ میں آیا اور وہ ایک اندھیری بدلی ہوگئی پر رات کو روشن ہوئی سو تمام رات ایک لشکر دوسرے کے نزدیک نہ آیا۔ پھر موسیٰ نے دریا پر ہاتھ بڑھایا۔ اور اللہ نے بہ سبب بڑی پوربی آندھی کے تمام رات میں دریا کو چلایا اور دریا کو سکھایا اور پانی کو دو حصہ کیا۔ اور بنی اسرائیل دریا کے بیچ میں سے سوکھی زمین پر ہوکے گذرگئے۔ اور پانی کے ان کے دہنے اور بائیں دیوار تھی اور مصریوں نے پیچھا کیا اور ان کا پیچھا کئے ہوئے وسے اور فرعون کے سب گھوڑے اور اس کی گھوڑیاں اور اس کے سوار دریا کے بیچو بیچ تک آئے اور یوں ہوا کہ اللہ نے پچھلے پہر اس آگ اور بدلی کے ستون میں سے مصریوں میں سے مصریوں کے لشکر پر نظر کی اور مصریوں کی فوج کو گھیرا دیا اور ان کی گاڑیوں کے پہیوں کو نکال ڈالا ایسا کہ مشکل سے چلتی تھیں چنانچہ مصریوں نے کہا آؤ اسرائیلیوں کے منہ پر سے بھاگے جائیں۔ کیونکہ اللہ ان کے لئے مصریوں سے جنگ کرتا ہے۔ اور اللہ نے موسیٰ سے کہا کہ اپنا ہاتھ دریا پر بڑھا تاکہ مصریوں اور ان کی گاڑیوں پر اور ان کے سواروں پر پھر آوے اور موسیٰ نے اپنا ہاتھ دریا پر بڑھایا اور دریا صبح ہوتے اپنی قوت اصلی پر لوٹا اور مصری اس کے آگے بھاگے اور اللہ اور اللہ نے مصریوں کو دریا میں ہلاک کیا اور پانی پھرا اور گاڑیوں اور سواروں اور فرعون کے سب لشکر کو جو ان کے پیچھے دریا کے پیچ آئے تھے چھپا لیا اور ایک بھی ان میں سے باقی نہ چھوٹا۔ پر بنی اسرائیل خشک زمین پر دریا کے بیچ میں چلے گئے اور پانی کی ان کے دہنے بائیں دیوار تھی سو اللہ نے اس دن اسرائیلیوں کو مصریوں کے ہاتھ سے یوں بچایا اور اسرائیلیوں نے مصریوں کی لاشیں دریا کے کنارے پر دیکھیں اور اسرائیلیوں نے بڑی قدرت جو اللہ نے مصریوں پر ظاہر کی دیکھی اور لوگ اللہ سے ڈرے تب اللہ اور اس کے بندے موسیٰ پر ایمان لائے۔ “ پسؔ ثابت ہوا کہ اس واقعہ (عبور موسیٰ) کے خرق عادت ہونے کے بیان میں قرآن کریم سے تورٰیت نے نہ صرف اجمالی اتفاق کیا ہے بلکہ اس طرح کہ اس کی کیفیت مفصل بیان کی ہے۔ پھر نہیں معلوم سر سید کو باوجود تورٰیت کو غیر محرف ماننے کے کون سا امر باعث ہے کہ ان دونوں کتابوں (قرآن اور تورٰیت) کے ظاہری اور صریحی الفاظ سے مخالفت کر رہے ہیں۔ ہاں میں بھولا۔ دوامر ان کو باعث ہیں۔ ایک تو وہی پرانی لکیر کا پیٹنا یعنی سپر نیچرل (خلاف قانون قدرت) نہیں ہوسکتا۔ جس کا مفصل جواب گذر چکا۔ دوسرا مانع ایک نقلی امر ہے جس کو آپ بطلیموس سے نقل کرتے ہیں چنانچہ لکھتے ہیں :۔ ” معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں جب بنی اسرائیل نے عبور کیا تھا بحر احمر ایسا تھا قہار سمندر نہ تھا۔ جیسا کہ اب ہے گو اس زمانہ کا صحیح جغرافیہ ہم کو نہ ملے مگر بہت پرانا جغرافیہ جو بطلیموس نے بنایا تھا مع اس کے نقش جات کے جو بطلیموس کے جغرافیہ کے مطابق بنائے گئے ہیں خوش قسمتی سے ہمارے پاس موجود ہے اور اس میں بحر احمر کا بھی نقشہ ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بطلیموس کے زمانہ تک بحر احمر میں تیس چھوٹے بڑے جزیرے موجود تھے اور یہ صاف دلیل اس بات کی ہے کہ اس زمانہ میں بحر احمر ایسا قہار سمندر نہ تھا جیسا کہ اب ہے یا جیسا کہ ہمارے علماء اسلام بارہ سو برس سے اس کو دیکھتے آئے ہیں بحر احمر کی اس حالت پر خیال کرنے سے بالکل یقین ہوجاتا ہے کہ وہ مقام جہاں سے بنی اسرائیل اترے بلاشبہ جوار بھاٹ کے سبب سے رات کو پایاب اور دن کو عمیق ہوجاتا ہوگا۔ الیٰ ان قال مؤرخین کے قول کے بموجب بنی اسرائیل سن عیسوی سے دو ہزار پانسو تیرہ برس قبل بحر احمر کی شاخ سے اترے تھے اور بطلیموس جس نے جغرافیہ لکھا ہے جس کو کلاڈس ٹانی کہتے ہیں سنہ عیسوی کی دوسری صدی میں تھا۔ پس بنی اسرائیل کے عبور کرنے کے دو ہزار سات سو برس تک وہ جزیرے موجود تھے۔ یہ بطلیموس یونانی تھا مگر مصر میں رہتا تھا اور اس لئے بحر احمر کا حال جو اس نے لکھا ہے زیادہ اعتبار کے لائق ہے (جلد اوّل صفحہ ١٠٠) مگر سید صاحب (وآلٔہ) انصاف تو کریں کہ یہ ہتھیار ٹوٹا پھوٹا آپ کا کہاں تک کام دے سکتا ہے۔ آپ کی اس دلیل کو دیکھ کر مجھے محدثین (رض) کی دور اندیشی کی تصدیق ہوئی کہ اخیر عمر کے محدث کی روایت قابل حجت نہیں۔ یا تو آپ جانتے ہیں کہ مقابل میں بقول آپ کے کوڑ مغز ملاّیان مساجد ہیں کہ ان کو کچھ بھی سمجھ نہیں۔ کہاں میرے کلام پر غور کریں گے اور کہاں حسن قبیح سے واقف ہوں گے یا یہ خیال سمایا ہے کہ آخر بے خبروں سے ملک خالی نہیں بلکہ قریباً دوتہائی ایسے ہی ہیں بالخصوص مذہبی باتوں سے تو بالکل ناواقف۔ بھلا یہ تو فرما دیں اگر تاریخی واقعات پر پچھلے لوگ آپ کے کمالات اور قومی خدمات کو معلوم کرنا چاہیں گے تو منشی ! سراج الدین احمد اڈیٹر سرمور گزٹ کی تحریر (جو آپ کے حالات دیکھنے والے ہیں) ان کے نزدیک زیادہ معتبر ہوگی یا ان مورخوں کی جو تین ہزار برس بعد قریب قیامت ہوں گے؟ حاشا وکلا۔ یہی وجہ ہے کہ سلطان محمود غزنوی رضی" اللہ عنہ وارضاہ کے حالات دریافت کرنے کو تاریخ یمینی سب سے زیادہ قابل اعتبار ہے جو واقعات کو بچشم خود دیکھتا یا دیکھنے والوں سے سنتا رہا۔ پس یہ قاعدہ ہمیشہ صحیح ہے اور ہونا چاہیے کیونکہ لیس الخبر کالمعائنۃ۔ تو پھر تمام تاریخ سے وہ تاریخ جو حضرت موسیٰ کے دیکھنے والوں نے لکھی ہوگی یعنی تورٰیت کیوں معتبر نہ ہوتی۔ خاص کر آپ تو ضرور ہی مانیں گے کیونکہ جناب والا اس کی نسبت تحریف لفظی کے قائل نہیں۔ پس انصاف سے سید صاحب وآلہ بتلا دیں اور سچ بتلا دیں اپنے نانا کے لحاظ ہی سے بتلا دیں کہ تورٰیت کی عبارت مذکورہ بالا کیا بتلا رہی ہے مجھے تعجب ہے سرسید کی تحقیقات پر کہ اس موقع پر انہوں نے تورٰیت کا نام تک نہیں لیا گویا کسی مسجد کے امام صاحب بن گئے۔ کہ تورٰیت انجیل کا پڑھنا پڑھانا بلکہ دیکھنا بھی حرام سمجھا۔ حالانکہ مطلب کے لئے تورٰیت کو پیش نظر رکھ کر آیات قرآنی میں بھی تاویل یا تحریف کردیا کرتے ہیں۔ کیوں نہ ہو وَ اِذَا تَکُوْنُ کَرِیْھَۃٌ اُدْعٰی لَھَا وَ اِذَا یُحَاسُ الْخَیْسُ یُدْعٰی جُنْدَبٗ اے صاحب ! ہم اس کو بھی تسلیم کئے لیتے ہیں کہ بطلیموس نے بھی ٹھیک لکھا۔ مگر اس سے یہ کیونکر ثابت ہوا کہ بنی اسرائیل کے لئے دریا نہیں پھٹا تھا۔ اوّل تو اس میں دریا کے جوار بھاٹ ہونے کا کوئی ذکر نہیں اور میں کہتا ہوں۔ اگر صریح لفظوں میں بھی بطلیموس لکھ جاتا کہ میرے دیکھتے ہوئے اس دریا میں جوار بھاٹ ہوتا رہا۔ تو بھی ہمیں مضر نہ تھا۔ اس لئے کہ تناقض کے نئے وحدت زمانہ کی بھی علماء منطق نے شرط لگائی ہے یہ نہیں کہ ایک شخص خبر دے کہ زید صبح کے وقت مسجد میں تھا۔ اور دوسرا بتلاوے کہ شام کو بازار میں تھا۔ تو ان دونوں میں کسی قسم کا تناقض یا تدافع ہو۔ پس ممکن ہے کہ بطلیموس کے زمانہ میں جو قریباً تین ہزار برس بعد میں ہوا بحر احمر میں جوار بھاٹ بقواعد علم جو الجی ہوگیا بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ کسی تاریخ سے بفرض محال اگر یہ بھی ثابت ہو کہ زمانہ عبور بنی اسرائیل میں جوار بھاٹ تھا۔ تو بھی ہمارے دعوٰی کو مضر نہیں۔ ممکن ہے کہ ہو مگر جب بنی اسرائیل گذرے ہوں تو خاص ان کی خاطر اللہ نے بہتے ہوئے دریا کو بند کردیا ہو۔ چنانچہ وَاِذْ فَرَقْنَابِکُمُ الْبَحْرَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ بتلا رہا ہے اور تورٰیت کی عبارت مذکورہ اس کی مشرح کیفیت بتلا رہی ہے۔ میں حیران ہوں کہ سید صاحب کس بناء پر قرآن کریم کو الہامی کتاب مان کر ایسی تاویلات رکیکہ اور اعذار بار وہ کیا کرتے ہیں۔ اس پر بھی طرہّ یہ کہ علماء کا لقب خشک ملا۔ کوڑ مغز۔ شہوت پرست آپ نے تجویز کر رکھے ہیں۔ کئے لاکھوں ستم اس پیار میں بھی آپ نے ہم پر اللہ ناخواستہ گر خشمگیں ہوتے تو کیا کرتے رہا آپ کا یہ اعتراض کہ ” اگر یہ واقعہ خلاف قانون قدرت ہوا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ سمندر کے پانی کو ہی ایسا سخت کردیتا کہ مثال زمین کے اس پر سے چلے جاتے“ (جلد اوّل صفحہ ٧١) اس کا جواب آپ نے خود ہی صفحہ ١٩٢ پر دے کر اس تکلیف سے ہمیں سبکدوش فرمایا جزاک اللّٰہ خیر الجزائ۔ جہاں پر آپ نے سمت قبلہ کے اختیار کرنے اور دوسری جانب کو چھوڑنے کی ترجیح بلا مرحج کے سوال کو اٹھانے کو فرمایا ہے کہ :۔ ” یہ شبہ بطور ایک شبہ عاتمہ الورود کے ہوگا جسے تمام عقلا لغو اور بیہودہ سمجھتے ہیں کیونکہ اگر بالفرض دو مساوی چیزوں میں سے ایک کے ترک اور ایک کے اختیار کرنے کی کوئی وجہ نہ ہو تو جو شبہ اس پر وارد ہوتا ہے وہی اس وقت بھی وارد ہوگا جب کہ مختار کو ترک اور متروک کو اختیار کیا جائے“ (جلد اوّل صفحہ ١٩٢) پس اسی طرح کی یہاں صورت ہے آپ بتلا دیں آپ کے سوال کا نام وہی عقلاء کیا تجویز کریں گے۔ غالباً وہی لقب دیں گے جو آپ نے ایسے شبہ کے لئے تجویز فرمایا یعنی لغو اور بہ۔ علاوہ اس کے ہم اس شبہ کی لغویت اور طرح بھی ثابت کرتے ہیں کہ اگر اسی پانی کو ایسا سخت کیا جاتا تو آپ جیسے منکرین معجزات کو ایک قسم کی گنجائش مل جاتی کہ وہ پانی حسب نیچر سردی کی وجہ سے سخت ہوگیا ہوگا جیسا عموماً پہاڑوں میں ہوتا ہے کوئی سپر نیچرل (خرق عادت) معجزہ نہیں پس اسی بھید سے علام الغیوب اللہ تعالیٰ نے اس شق کو متروک اور اس کو اختیار کیا۔ فالحمدُللّٰہ علٰی ذٰلک (منہ)