سورة القلم - آیت 1

ن ۚ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

نٓ۔ قسم ہے قلم کی اور اس چیز کی جسے لکھنے والے لکھ رہے ہیں

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(1۔16) میں (اللہ) رحمن ہوں میری رحمانیت کے تقاضا سے تجھے اے رسول قرآن ملا اور تو نبی ہوا تیرے مخالف تیرے حق میں غلط کہتے ہیں تو پاگل ہے مجنون ہے۔ ہرگز نہیں قسم ہے قلم اور ہر اس چیز کی جو قلم کے ساتھ لوگ لکھتے ہیں تو اللہ کے فضل سے مجنون نہیں ہے بھلا مجنون اور پاگل تیرے جیسے ہوتے ہیں مجنون اور ہوشیار میں ایک ہی بین فرق ہوتا ہے کہ مجنون کی حرکات منظم نہیں ہوتیں اس لئے اس کے قول وفعل پر نتیجہ مرتب نہیں ہوسکتا تیری بابت تو ہم شہادت دیتے ہیں کہ تیرے کاموں پر تیرے لئے ایسا دائمی بدلہ ہے جو ختم نہ ہوگا کیونکہ تیری تعلم کا سلسلہ آخر زمانہ تک جاری رہے گا اور تیری حرکات کی تنظیم کا یہ حال ہے کہ تو اعلیٰ خلق پر قائم ہے یہ نہیں کہ گاہے ما ہے کوئی خلق کی بات تجھ سے ہوجائے نہیں بلکہ دائمی اور مستقل تجھ سے اخلاقی باتیں ہوتی رہتی ہیں پس صریح حالت دیکھ کر بھی جو تجھے مجنون کہے وہ خود مجنون نہیں تو کیا ہے اچھا تو بھی دیکھیگا اور یہ لوگ بھی دیکھ لیں گے کہ تم فریقین میں سے کس کو جنون ہے یعنی کس کا انجام بخیر اور کامیاب ہے اور وہ کامیاب ہوتا ہے اور کون نامراد باقی رہا کسی مخالف فریق کا دوسرے کو گمراہ کہنا سو تو اس کی فکر نہ کر یقینا تروا پروردگار ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو اس کی سیدھی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں اور وہ ہدایت یا بوں سے بھی خوب واقف ہے پس تو اس سے بے فکر ہو کر اپنے اداء فرض میں لگا رہ تیرے فرائض میں یہ بھی داخل ہے کہ تو اللہ کے کلام کو جھٹلانے والوں کا کہا نہ مانو کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ تبلیغ احکام میں تھوڑا سا تو نرم ہوجائے یعنی شرک اور بت پرستی کی تردید زیادہ زور سے نہ کرے۔ تو وہ بھی مخالفت زیادہ زور سے نہ کریں گے بلکہ نرم پڑجائیں گے خبردار جھوٹی قسمیں کھانے والے ذلیل وخوار آپس میں ایک دوسرے کے برخلاف اکسانے والے ادھر ادھر لگانے والے کارخیر کو یعنی اصلاح ذات البین کو روکنے والے انسانی اخلاق کی حد سے تجاوز کرنے والے بدکار طبیعت کے اکھڑ اور علاوہ ازیں بدخمیر انسان کی بات کبھی مت مانو کیونکہ بحکم کل اناء یترشح بما فیہ ایسے لوگ وہی کہیں گے جو یہ خود کرتے ہیں اور جو ان کا رویہ ہے جیسے تیرے زمانہ میں ایسے لوگ ہیں آئندہ بھی ہوں گے اور ہمیشہ ہوتے رہیں گے ایسے شخص کی علامت یہ ہے کہ جب ہمارے احکام اس کو سنائے جاتے ہیں تو بوجہ مالدار اور صاحب اولاد ہونے کے تسلیم احکام سے انکار کرتا ہوا کہتا ہے کہ یہ تو پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں ان کو وحی الٰہی سے کیا تعلق کہیں موسیٰ اور فرعون کا قصہ ہے کہیں آدم اور شیطان کا ذکر ہے کہیں کچھ ہے تو کہیں کچھ ایسے شخص کو چاہے اس زمانہ میں ہے یا آئندہ ہوگا ہم اس کی ناک پر داغ لگائیں گے یعنی اس کو برادری میں بلکہ ساری دنیا میں ذلیل اور نامراد کریں گے ایساکہ ہر کہہ ومہ جائے گا کہ یہ نامراد ہے (اس طرف اشارہ ہے کہ قرآن مجید میں جو الفاظ آئے ہیں یہ تمثیل ہیں جو ہر زمانے کے ایسے لوگوں پر صادق آتے ہیں جو ان اوصاف سے موصوف ہوں اس لئے تعلیم عام ہے اسکی ناک پر نشان لگانے سے مراد اس کی نامرادی اور ناکامی ہے یعنی جو جو منصوبے وہ اسلام اور نبی اسلام کے برخلاف دل میں رکھتا ہے ان سب میں وہ ناکام رہے گا۔ زمانہ رسالت میں ان اوصاف سے موصوف ایک شخص تھا جس کا نام ولید بن مغیرہ تھا بعد کے زمانہ میں بھی ایسے لوگ ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ اللہ اعلم۔ )