فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ ۖ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ
لیکن شیطان نے ان کو پھسلا کر وہاں سے نکلوا دیا اور ہم نے فرمایا کہ اتر جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور ایک وقت مقرر تک تمہارے لیے زمین میں ٹھہرنا اور فائدہ اٹھانا ہے
(36۔39) پس آخر کار شیطان نے ان کو اس جنت سے لغزش دی اور غلطی کراکر ان نعمتوں سے جن میں وہ دونوں بیوی خاوند رہتے تھے نکلوادیا۔ جب ان سے غلطی ہوئی تو ہم نے بھی کہا۔ تم اس جنت سے پستی میں اتر جاؤ۔ اس لئے کہ قطع نظر اس عداوت اور شررات کے جو شیطان نے تم سے کی خود تم آئندہ نسلوں کے لوگ آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہوگے اور بہشت ایسے دشمنوں کے لئے نہیں ہے۔ کیا تم نے نہیں سنا پس تم اس سے نکل جاؤ اور زمین پر جارہو اس میں تمہارے لئے ٹھہرنے کو جگہ اور زندگی تک گذارہ بھی مہیا ہے اس حکم کے مطابق نیچے تو آگئے۔ چونکہ ان سے یہ قصور واقع میں سہوًا ہوا تھا۔ نہ عنادًا۔ اس لئے وَے ہمیشہ اس کے تدارک میں لگے رہے اور رحمت الٰہی بھی ان کی یہ حالت دیکھ کر موجزن ہوئی پھر آخر کار آدم نے اپنے اللہ کے الہام سے چند باتیں سیکھیں (ربنا ظلمنا انفسنا کی طرف اشارہ ہے۔ ٢١) جن کا خلاصہ یہ تھا کہ اے اللہ ہم سے سہوًا غلطی ہوگئی تو ہی رحم والا مہربان ہے پس اللہ نے اس پر رحم کیا اس لئے کہ وہ بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ بعد اس رحم کے حسب دستور آدم نے اپنا مسلوبہ مقام حاصل کرنا چاہا۔ اور دخول جنت کی درخواست کی۔ تو ہم نے کہا یہ نہ ہوگا بلکہ مناسب یہ کہ اب تم سب یعنی آدم۔ حوا اور ان کی اولاد اس باغ سے نیچے ہی اترے رہو پس اس حکم میں تبدیلی نہ ہوگی ہاں ایک ذریعہ تمہارے دخول جنت کے لئے ہم بتائے دیتے ہیں وہ یہ کہ اگر میری طرف سے تم کو کوئی پیغام ہدایت پہنچے تو جو لوگ تم میں سے اس میری ہدایت کے تابع ہوں گے سو وے بیشک جنت کے قابل ہوں گے نہ اس کو کچھ خوف ہوگا نہ غم کریں گے۔ اور جو لوگ اس ہدایت کے منکر ہونگے اور علاوہ اس ہدایت کی ہماری ہدایت کی نشانیاں جھٹلاویں گے وے ہرگز جنت میں نہ جاویں گے بلکہ جہنم کی۔ آگ کے قابل ہونگے نہ صرف چند روز بلکہ ہمیشہ کے لئے اس میں رہیں گے۔ اس امر کو اور لوگ بھولیں تو بھولیں۔