سورة فصلت - آیت 47

إِلَيْهِ يُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَمَا تَخْرُجُ مِن ثَمَرَاتٍ مِّنْ أَكْمَامِهَا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ ۚ وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ أَيْنَ شُرَكَائِي قَالُوا آذَنَّاكَ مَا مِنَّا مِن شَهِيدٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

قیامت کا علم اللہ ہی کی طرف راجع ہوتا ہے، جو اپنے شگوفوں سے نکلنے والے پھل اس کے علم میں ہیں، اسی کو معلوم ہے کہ کونسی مادہ حاملہ ہوئی ہے اور کس نے بچہ جنا ہے، پھر جس دن وہ ان لوگوں کو پکارے گا کہ کہاں ہیں میرے وہ شریک۔ یہ کہیں گے ہم عرض کرچکے ہیں آج ہم میں سے کوئی اس کی گواہی دینے والا نہیں ہے

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(47۔51) اس قسم کی تعلیم سن کر ان لوگوں سے اور تو کچھ بنتا نہیں یہ پوچھنے لگتے ہیں کہ جس روز نیک وبد کاموں کا بدلہ ملے گا وہ دن کب ہوگا جس کا نام تم لوگ قیامت رکھتے ہو حالانکہ حقیقت الامر یہ ہے کہ قاہمت کی گھڑی کا علم بھی اسی اللہ کو ہے وہی جانتا ہے کہ اس کا وقت کب ہے اسی پر کیا موقوف ہے جو جو پھل پھول اپنے گابھوں سے نکلتے ہیں اور جو مادہ حاملہ ہوتی اور جنتی ہے یہ سب واقعات اس اللہ کے علم سے ہوتے ہیں اس لئے اس کو نہ کسی کے بتلانے کی ضرورت اور نہ کسی کے سمجھانے کی حاجت۔ جس دن کی بابت یہ سوال کرتے ہیں اس کی تاریخ کا بتانا تو مصلحت الٰہی نہیں۔ مگر اتنا بتانا تو ضروری ہے اس روز ان مشرکوں کو بلا کر پوچھے گا میرے شریک جن کو تم میرے شریک جانا کرتے تھے وہ آج کہاں ہیں وہ آج تم کو کیوں فائدہ نہیں پہنچاتے؟ وہ جواب میں کہیں گے اے ہمارے مولا؟ ہم آپ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی بھی ان کا واقف نہیں۔ وہ سمجھیں گے کہ دنیا میں ملزم اپنے جرم سے انکاری ہوجاتا تھا تو بسا اوقات عدم ثبوت کی حالتیں چھوٹ جاتا تھا یہاں بھی ایسا ہی ہوگا اس لئے وہ اپنے صحیح صحیح واقعات سے انکار کر جائیں گے اور جن جن چیزوں کو وہ پہلے پکارا کرتے تھے یعنی جن جن لوگوں سے دعائیں مانگا کرتے تھے ان سب کو وہ بھول جائیں گے اور گمان غالب سمجھیں گے کہ اقرار کرنے میں ہمارے لئے مخلصی نہیں مگر عالم الغیب اللہ کے سامنے ان کی ایک بین نہ چلے گی۔ غور کیا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ انسان میں کئی قسم کے عیوب ہوتے ہیں صریح شرک وکفر تو سب جانتے ہیں ان کے سوا اور بھی ہیں وہ یہ کہ انسان بھلائی مانگنے سے تھکتا نہیں مانگتا جائے اور ملتی جائے لیکن کوئی وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ مصلحت الٰہی اس کے منشاء کے خلاف ہوتی ہے یہ کچھ چاہتا ہے اللہ کچھ۔ پس اگر مصلحت اللہ تعالیٰ سے اس انسان کو کسی قسم کی برائی پہنچتی ہے تو بالکل بے امید ہوجاتا ہے اور اگر بعد تکلیف پہنچنے کے ہم اس کو اپنی طرف سے رحمت‘ آرام اور آسائش پہنچاتے ہیں تو بجائے شکر گذار ہونے کے کہنے لگتا ہے یہ تو میرا حق ہے میں اپنی لیاقت کی وجہ سے اس کا مستحق ہوں اور اسی پر بس نہیں کرتا بلکہ اس غرور میں یہ بھی کہہ اٹھتا ہے کہ میں قیامت کو ہونے والی نہیں جانتا۔ یہ سب ملّاں لوگوں کے ڈھکوسلے ہیں نہ کوئی قیامت ہے نہ دوزخ نہ بہشت۔ اور اگر فرضا میں مر کر اپنے پروردگار کے پاس لوٹ کر گیا بھی تو وہاں بھی اس کے پاس میرے لئے اچھی جگہ ہوگی۔ یہ ایسے لوگوں کے خیالات جو دراصل اللہ کے احکام سے منکر ہیں پس وہ سن لیں کہ ہم (اللہ) ان کافروں کو ان کے کاموں کی خبریں دیں گے اور ان کو سخت عذاب چکھا دیں گے کیسے نامعقول لوگ ہیں اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ دنیا کا ہیرو پھیر سب ہمارے اختیار میں ہے کسی کو امیر کرنا امیر کو غریب کردینا ہماری قدرت کا ادنیٰ کرشمہ ہے مگر انسان ایسا شریر ہے کہ جب ہم ایسے انسان پر انعام کرتے ہیں یعنی کسی قسم کی آسائش و آرام دیتے ہیں تو ہمارے حکموں سے منہ پھیر لیتا ہے اور اکڑ کر چلتا ہے اور جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے تو بڑی لمبی چوڑی دعا کرنے لگ جاتا ہے غرض انسان کی عملی تصویر بالکل اس شعر کی مانند ہے ؎ عامل اندر زمان معزولی شیخ شبلی وبایزید شوند