سورة غافر - آیت 65

هُوَ الْحَيُّ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ فَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ۗ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اللہ“ ہی ہمیشہ زندہ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی کو پکارو اپنے دین کو اسی کے لیے خالص کرو، تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

وہی اکیلا واحد لاشریک زندہ ہے اور کوئی چیز دنیا میں اصل زندہ نہیں بلکہ اس کی طرف سے زندگی ملنے سے زندہ ہیں کیا تم نے کسی صوفی کا شعر نہیں سنا ؎ اوچوجان ست وجہاں چوں کالبد کالبد ازوے پذیر دآلبد اس لئے اس کے سوا کوئی معبود نہیں پس تم اخلاص مندی کے ساتھ اسی کو پکارا کرو اور یہ دل میں یقین رکھو کہ سب تعریفیں اللہ رب العالمین ہی کی ذات کے لئے مخصوص ہیں کیونکہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے وہ اسی کے حکم سے ہوتا ہے وہی سب کاموں کی علت العلل ہے۔ سب کچھ اسی کے زیر فرمان ہے۔ اسی لئے اے نبی ! تجھ کو حکم ہوتا ہے کہ تو ان لوگوں کو بآواز بلند کہہ دے کہ جبکہ میرے پاس میرے رب کی طرف سے کھلی دلیلیں آچکیں تو آئندہ کے لئے مجھ کو اس سے روکا گیا کہ میں ان لوگوں کی عبادت کروں جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو۔ اور مجھ کو اس بات کا حکم ہوا ہے کہ میں اللہ رب العالمین ہی کی فرمانبرداری کروں۔ اس کے سوا میرا کسی سے تعلق عبودیت نہیں میں صرف اسی ایک اللہ کا بندہ ہوں اور وہی میرا مالک ہے سنو ! وہی ذات پاک ہے جس نے تم کو یعنی شروع میں تمہارے باپ آدم کو مٹی سے پیدا کیا پھر دنیا کا سلسلہ یوں چلایا کہ بچے کو نطفے سے پھر لوتھڑے سے پیدا کیا یعنی نطفہ عورت کے رحم میں جا کر خون کا لوتھڑا بن جاتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ اس میں ہڈیاں اور گوشت پوست بنتا ہے پھر تم کو بچہ بنا کر باہر نکالتا ہے پھر (تمہاری پرورش کرتا ہے) تاکہ تم اپنی پوری طاقت جوانی کو پہنچو۔ پھر (تم کو اور بڑھاتا ہے) تاکہ تم بوڑھے ہوجائو۔ بعض تم میں سے اتنی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں اور (تم میں سے بعض بڑھتے ہیں) تاکہ تم مقررہ وقت تک پہنچو اور یہ بیان تم کو سنایا جاتا ہے تاکہ تم سمجھو کہ تم دنیا میں کیوں آئے۔ آکر اصل مطلب پر رہے یا ادھر ادھر بھٹک گئے۔ سنو ! اصل مطلب یہ ہے کہ تم اس مالک کے ہو رہو جو تمام دنیاکو زندگی بخشنے والا ہے وہی ذات پاک ہے جو زندہ کرتا اور مارتا ہے اصل زندگی اور موت کا پیدا کرنا اسی کے ہاتھ ہے پھر جب وہ کسی چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو سوائے اس کے نہیں اس کو صرف اتنا کہتا ہے کہ ہوجا وہ ہوجاتی ہے اس کے حکم سے روگردانی نہیں کرسکتی۔ باوجود اس قدرت اور حکومت کے لوگ ایسے مالک کو چھوڑ کر ادھر ادھر بہکے پھرتے ہیں۔ کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا۔ جو اللہ کے احکام میں جھگڑتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے یوں ہونا چاہیے۔ کوئی کہتا ہے یوں ہونا چاہیے۔ کوئی تکذیب کرتا ہے کوئی انکار۔ کوئی شک کرتا ہے تو کوئی اعتراض یہ لوگ کہاں کو بہکائے جاتے ہیں ؟ ان کی کوئی بات ٹھکانے کی بھی ہے ؟ یہ وہی لوگ یعنی ان لوگوں کی اولاد ہیں جو پہلے بھی الٰہی کتاب کی تکذیب کرچکے ہیں۔ اور ان واقعات (معجزات وغیرہ) کو جھٹلاتے رہے ہیں جن کے ساتھ ہم (اللہ) نے اپنے رسول بھیجے پس یہ لوگ اور ان کے پہلے جن کی روش پر یہ چلتے ہیں اپنا انجام جان لیں گے۔ جس وقت طوق ان کی گردنوں میں اور زنجیر ان کے پیروں میں ہوں گے اور اسی آبرو کے ساتھ وہ گرم‘ پانی میں گھسیٹے جائیں گے وہاں سے پھر آگ میں جھونکے جائیں گے۔ وہاں ان کی حالت جیسی کچھ ہوگی عیاں راچہ بیاں۔ پھر ان کو کہا جائے گا۔ کہاں ہیں وہ لوگ جن کو تم اللہ کے سوا شریک بنایا کرتے تھے وہ کہیں گے وہ تو ہم سے کھوئے گئے کیونکہ وہ آج ہم کو نظر نہیں آتے۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ہم تو پہلے ہی سے کسی چیز کو پکارتے نہ تھے۔ معلوم ہوتا ہے کسی غلط فہمی سے ہمارے نام یہ جرم لگایا گیا ورنہ ہم تو ایسے نہ تھے اللہ تعالیٰ اسی طرح کافروں کو بدحواس کر دے گا۔ ان کو اپنا کیا بھی یاد نہ رہے گا۔ ان کو جواب میں کہا جائے گا۔ یہ عذاب جو واقعی تمہارے افعال قبیحہ کا نتیجہ ہے بسبب اس کے ہے جو تم زمین پر ناحق خوشیاں مناتے اور چند روزہ نازونعمت پر اتراتے تھے۔ اپنے مقابلہ میں مسلمانوں کو ھیچ سمجھتے اور ناکارہ جانتے تھے۔ اچھا لو اب جہنم میں داخل ہوجائو ہمیشہ اس میں رہو گے پس متکبروں کا ٹھکانہ برا ہے جہاں پہنچ کر اپنے کئے کا پھل پائیں گے۔ پس اے نبی ! تو ان لوگوں کی بیہودہ گوئی پر صبر کر اور یقین رکھ کہ اللہ کا وعدہ بابت فتح ونصرت سچ ہے ضرور ہو کر رہے گا۔ ہاں یہ ضرور نہیں کہ جلدی ہوجائے بلکہ جو وقت اللہ کے علم میں اس کے لئے ہے مقرر ہے اسی میں ہوگا۔ جن جن باتوں کا ہم ان کو وعدہ دیتے ہیں ان میں سے بعض ہم تیری زندگی میں تجھ کو دکھا دیں یا ان کے وقوعہ سے پہلے ہی تجھ کو فوت کرلیں تو برابر ہے۔ کیونکہ ہماری طرف ہی یہ لوگ پھر کر آئیں گے۔ اس وقت ہم ان کو سب کچھ دکھا دیں گے۔