سورة ص - آیت 71

إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِّن طِينٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(71۔88) تو ان کو ایک عبرت ناک قصہ سنا۔ جب تیرے پروردگار نے فرشتوں کو کہا دیکھو میں مٹی سے ایک آدمی پیدا کرنے کو ہوں سو جب میں اس کو بنا سنوار لوں اور اس میں اپنی مخلوق کردہ روحوں میں سے کوئی روح ڈال دوں تو تم اس کے کمال کا اعتراف کرنے کو اس کے سامنے تعظیم بجا لانا۔ یہ اس قصہ کا اجمال ہے جو دیگر مقامات پر تفصیل سے آیا ہے کہ فرشتوں کے اظہار کمالات پر اللہ کا یہ حکم ہوا تو سب کے سب ملائکہ تعظیم بجا لائے لیکن ایک ابلیس نے ان میں سے تکبر کیا اور کافر ہوگیا اللہ نے فرمایا۔ ابلیس ! جس چیز کو میں نے خود پیدا کیا اور اس کی تعظیم کرنے کا حکم دیا تو اس کی تعظیم کرنے سے تجھے کس چیز نے منع کیا۔ کیا تو متکبر ہے یا واقع میں بڑے لوگوں سے ہے جن پر (بزعم ان کے) میرے حکم بھی نافذ نہیں ؟ اس (ابلیس) نے کہا گو میں تیری مخلوق ہونے کی حیثیت سے فرمانبردار ہوں اس خیال سے تو جو تو فرما دے حاضر ہوں مگر واقعہ یہ ہے کہ میں اس (آدم) سے اچھا ہوں۔ اچھا بھی از خود نہیں بلکہ تیرے بنانے سے کیونکہ تو نے مجھے آگ سے بنایا ہے اور اس کو مٹی سے اور یہ ظاہر ہے کہ آگ مٹی سے افضل اور بہتر ہے۔ اللہ نے فرمایا کمبخت ! تو نہیں جانتا کہ نص کے مقابلہ میں قیاس کرنا جائز نہیں۔ میرے حکم کے سامنے تو نامعقول ڈھکوسلے لگاتا ہے پس تو اس جماعت سے نکل جا کیونکہ تو مردود ہے اور میری طرف سے قیامت تک تجھ پر لعنت ہے ابلیس نے کہا اچھا حضور نے جو حکم فرمایا مجھے منظور ہے پس اے میرے مولا جس روز مخلوق دوبارہ اٹھائی جائے گی اس روز تک مجھے مہلت عنایت ہو۔ تو میں حضور کو ان پیارے بنی آدم کا پول دکھا دوں۔ حکم ہوا اچھا مقررہ وقت قیامت تک تجھے مہلت ہے۔ ہم جانتے ہیں جو تیری غرض ہے جو تو کرے گا ہم بھی اس کا انتظام اچھی طرح کردیں گے اس کے بعد ابلیس نے کہا مجھے حضور کی عزت اقبال کی قسم ہے کہ میں ان سب (بنی آدم) کو بہکائوں گا۔ لیکن ان میں سے تیرے خالص بندوں پر میرا اثر نہ ہوگا اللہ نے فرمایا بیشک حق یہی ہے کہ میرے نیک بندوں پر تیرا اثر نہ ہوگا اور میں بھی سچ کہتا ہوں کہ میں تجھ سے اور ان بنی آدم میں سے جو تیرے تابع ہوں گے ان تمام سے جہنم کو بھر دوں گا اور تیرے شر سے بچانے کے لئے یہ انتظام کروں گا کہ سلسلہ نبوت اور ولایت قائم کر کے مخلوق کو ہدایت پہنچائوں گا جو کوئی سعادت مند ہوگا۔ وہ تیرے شر سے محفوظ رہے گا۔ چنانچہ اسی سلسلہ کا آخری اور اعلیٰ ممبر اے نبی ! تو اس وقت موجود ہے یہ لوگ جو تیری مخالفت کرتے ہیں تو ان سے کہہ دے کہ میں محض اللہ کے حکم تم کو سناتا ہوں اور اس پر کوئی عوض نہیں چاہتا۔ جو کچھ میں تم سے اس پر کچھ عوض مانگوں وہ تم ہی رکھو میں اس کی طمع نہیں کرتا۔ نہ میں تکلف کرنے والا ہوں کہ جو بات میرے علم میں نہ ہو وہ بھی میں کسی نہ کسی طرح بنا کر کہدوں پس یہ قرآن شریف جہان کے لوگوں کے لئے نصیحت ہے اور تم اس کی بتلائی ہوئی خبر اور آئندہ واقعات تھوڑے ہی وقت بعد جان لو گے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ؟