سورة ص - آیت 49

هَٰذَا ذِكْرٌ ۚ وَإِنَّ لِلْمُتَّقِينَ لَحُسْنَ مَآبٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

یہ متقی لوگوں کے لیے نصیحت ہے یقیناً ان کے لیے بہترین ٹھکانہ ہے

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(49۔70) نہیں بلکہ یہ قرآن ایک نصتحچ ہے جو کوئی چاہے اس سے ہدایت پا کر متقیوں میں آجائے اور متقیوں کے لئے آخرت میں اچھا ٹھکانہ ہے یعنی ہمیشہ رہنے کے لئے بہشت۔ جن کے دروازے ان کے لئے کھلے ہوں گے ان بہشتوں میں تکئے لگائے بیٹھے ہوں گے وہ خادمان بہشت سے کھانے کے لئے بہت سے میوے اور پینے کے لئے بہت قسم کے پانی، خالص پانی، انگوروں کا پانی، برف، لیمن وغیرہ طلب کیا کریں گے۔ غرض جو چاہیں گے وہاں تیار ملے گا۔ یہ ظاہر ہے کہ انسانوں بلکہ جملہ جانداروں کو تین قسم کی حاجات ہوتی ہیں۔ کھانے پینے کی اور کھانے پینے پر جو بطور نتیجہ کے پیدا ہوتی ہے یعنی ضرورت نکاح انسان کی کامل راحت اسی میں ہوسکتی ہے کہ تینوں حاجتوں کا انتظام ہو۔ اس لئے اللہ کریم کی آرامگاہ یعنی جنت میں ان سب کا انتظام ہوگا اور اچھی طرح ہوگا کہ بڑی بڑی خوبصورت نیچی نگاہ رکھنے والی با حیا ہم عمر بیویاں ان کے پاس ہوں گی جن سے وہ تیسری قسم کی حوائج (نفسانیہ) پوری کریں گے اور کامل راحت میں زندگی گذاریں گے حساب کے روز انہی نعمتوں کے ملنے کا تم کو ہماری طرف سے وعدہ دیا جاتا ہے کچھ شک نہیں کہ یہ ہمارا رزق بھی انتہا ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا۔ متقیوں کا انعام تو یہ ہے اور بدمعاشوں بے ایمانوں اور سرکشوں کا ٹھکانہ بہت برا یعنی جہنم ہے جس میں وہ داخل ہوں گے تو معلوم کریں گے کہ وہ بہت بری جگہ ہے حکم ہوگا لو یہ سخت گرم کھولتا ہوا پانی اور پیپ پیئو اور اسی قسم کی کئی ایک اور قسموں کے عذاب وہاں ہوں گے۔ چونکہ اصل مجرم وہ لوگ ہیں جو دوسروں پر اثر پہنچا کر ان کو گمراہ کرتے ہیں اس لئے جہنم میں بھی پہلے وہی ڈالے جائیں گے ان سے بعد ان کے چیلے چانٹے اور یہ کہا جائے گا کہ یہ مجرموں کی جماعت پھٹکار اور لعنت کی حالت میں تمہارے ساتھ داخل جہنم ہوتی ہے بس اب تم دونوں گروہ ایک جگہ رہو گے وہ گمراہ چیلے بعد غوروفکر اپنے گمراہ کنندے گرئووں کو مخاطب کر کے کہیں گے لعنت اور پھٹکار ہم پر نہیں بلکہ تم لوگوں پر پھٹکار ہو۔ تم ہی لوگوں نے تو ہمارے لئے یہ عذاب آگے مہیا کرایا تمہاری گمراہی سے ہم گمراہ ہوئے تم لوگ ایسے نہ ہوتے تو ہماری کیوں ایسی گت ہوتی۔ پس تم دیکھ لو بہت بری جگہ ہے اللہ دشمن کے بھی نصیب نہ کرے۔ پھر کچھ دیر بعد وہ اتباع اللہ کی طرف مخاطب ہو کر کہیں گے اے ہمارے پروردگار ! جس شخص نے ہمارے لئے یہ عذاب مہیا کرایا یعنی جو ہم کو گمراہ کر کے ہمارے اس عذاب کا باعث ہوا تو اس کو آگ میں دگنا عذاب دے۔ تاکہ واضح ہوجائے کہ یہ شخص مخلوق کا گمراہ کنندہ ہے یہ کہہ کر وہ ادھر اھر دیکھیں گے اور کہیں گے کہ ہمیں کیا ہوگیا کہ ہم جن ایماندار لوگوں کو اپنی بے وقوفی سے بدنصیب اور برے جانتے تھے ان کو ہم یہاں نہیں دیکھتے کیا واقع میں ہم ان کو یونہی مخول ہی کرتے تھے اس لئے وہ یہاں نہیں داخل ہوئے یا ہماری نظریں ان پر نہیں پڑتیں اس میں شک نہیں کہ ان جہنمیوں کی یہ تکرار واقعی ہوگی جن لوگوں کی بابت ان کی نظریں خیرہ ہوں گی وہ واقعی جہنم میں نہ ہوں گے۔ بلکہ وہ نجات یافتہ ہو کر جنت میں جا پہنچے ہوں گے اختلاف تو ان میں صرف یہی تھا کہ دنیا کا معبود واحد ہے یا متعدد ہیں سو تو اے نبی ! ان کو کہدے کہ میں تم کو صرف برے کاموں پر ڈرانے والا ہوں۔ اور اللہ کے لئے زبردست کے سوا دوسرا کوئی معبود نہیں۔ وہی آسمانوں اور زمینوں کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا پروردگار وہی غالب اور بخشش کرنے والا ہے۔ اے نبی ! تو یہ بھی ان کو کہہ واقعات قیامت کی یہ خبر بہت بڑی۔ دل پر ہیبت ڈالنے والی ہے مگر تم اس سے روگردان ہو۔ یہ مت سمجھو کہ میں از خود جانتا اور بتلاتا ہوں نہیں بلکہ مجھے تو اس وقت بھی اعلیٰ جماعت ملائکہ کی بابت کوئی علم نہیں ہوتا جب وہ آپس میں گفتگو کرتے ہیں حالانکہ عالم کشف میں ان کی گفتگو سے بہت کچھ چرچا ہوجاتا ہے۔ میری طرف کوئی ایسا سلسلہ تار لگا ہوا نہیں ہے جس میں ہر وقت خبریں پہنچتی ہوں ہاں مجھے یہی پیغام پہنچتا ہے کہ میں صرف تم لوگوں کو صاف صاف الفاظ میں عذاب الٰہی سے ڈرانے والا اور نیک کاموں پر خوشخبری بتلانے والا ہوں اور بس لیکن یہ عرب کے لوگ تیرے حسد میں ایسے جلے بھنے ہیں کہ سنتے ہی نہیں۔ جانتے نہیں کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا