سورة الروم - آیت 1

لم

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

الف لام میم

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(1۔19) سورۃ الروم :۔ میں ہوں اللہ سب سے زیادہ علم والا میں اپنے کامل علم سے تم کو اطلاع دیتا ہوں اہالی ١ ؎ روم اپنی ملک کی قریب حدود میں اگرچہ اب مغلوب ہوگئے ہیں مگر یاد رکھو وہ اپنی اس مغلوبی کے بعد چند سال میں جلدی ہی غالب آئیں گے یہ مت سمجھو کہ فارس کی فوجی طاقت روم سے زیادہ ہے اور رومی بچے کھچے اور بھی مغلوب ہوچکے ہیں پھر یہ کیسے غالب ہوں گے کیونکہ اہالی فارس کی اس فتح سے پہلے اور پیچھے سب اختیارات اللہ ہی کو ہیں اس لئے وہ جس کو چاہے غلبہ دے سکتا ہے چاہے وہ کیسا ہی ضعیف ہو اور اس کا مقابل کیسا ہی قوی کیونکہ اس کی شان ہے ؎ اوست سلطاں ہر چہ خواہداں کند عالے را درد مے ویراں کند رومی اور فارسی دو قومیں مختلف المذاہب تھیں رومی اہل کتاب عیسائی تھے اور فارسی مشرک الہامی کتابوں سے منکر جنگ میں رومی مغلوب ہوگئے تو عرب کے مشرکوں کو صرف اس خیال سے خوشی ہوئی کہ اہل فارس بھی ہماری طرح لامذہب ہیں اور رومی لوگ مسلمانوں کی طرح اہل کتاب ہیں جیسے جاپان اور روس کی لڑائی میں ہندوستانی جاپانیوں کی فتح پر محض ایشیائی ہونے کی وجہ سے خوشیاں مناتے تھے نیز عرب کے مشرکوں نے بطور تفاول کے کہا کہ جس طرح فارسی رومیوں پر غالب آئے ہیں اسی طرح ہم بھی مسلمانوں پر غالب آئیں گے ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ اتفاق ایسا ہوا کہ جس روز جنگ بدر میں مسلمانوں کو فتح ہوئی اسی روز رومیوں کو فارسیوں پر فتح ہوئی (منہ (ایمان دار مسلمان اس روز اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے کیونہ اس روز ان کو بھی مشرکین عرب پر فتح ہوگی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ؎ چہ خوش بود کہ بر آید بیک کرشمہ دوکار ایک تو رومیوں کے غلبہ کی خؤشی دوم اپنی فتح کی مسرت اللہ تعالیٰ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے پھر جس کی مدد پر وہ ہوجائے اس کو کام کمی ہے کیونکہ ایک زبردست معاون اور مددگار اس کی طرف ہے اور وہ بڑا غالب ہے یہ نہیں کہ غلبہ کی ترنگ میں ایک کو دباتا پھرے نہیں کیونکہ وہ بڑا مہربان ہے اس کی مہربانی کی صفت متقاضی ہے کہ اس کا حق بھی ہے اللہ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ میں ضرور ایسا کروں گا اور یاد رکھو کہ اللہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا لیکن بہت سے لوگ اس راز کو نہیں جانتے اللہ کے وعدوں پر ان کو بھروسہ نہیں ہوتا بلکہ وہ صرف دنیاوی زندگی کے ظاہری اسباب کو جانتے ہیں ان کے نزدیک تمام عزت اور اعزاز بس یہی ہے کہ دنیا کا مال اسباب کافی ہو اسی میں ان کی تگ و دو ہے اور آخرت کی عزت سے غافل ہیں گویا ان کا اصول ہی یہ ہے ؎ عاقبت کی خبر اللہ جانے اب تو آرام سے گذرتی ہے بھلا یہ لوگ جو آخرت سے ایسے غافل ہیں کیا انہوں نے اپنے دل میں کبھی یہ غور نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کو سچے نتیجے سے پیدا کیا اور وقت مقرر کے ساتھ بنایا ہے یہ نہیں کہ بنایا اور بگاڑا اور گیا دنیا میں ایک شخص تمام عمر صلاحیت سے گذارے دوسرا تمام قسم کے گناہوں میں مبتلا رہے مگر مرنے کے بعد دونوں برابر ہوں؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے جیسے یہ غلط ہے ایسے یہ بھی غلط ہے کہ اس دنیا کی کبھی انتہا نہیں جیسے دہریوں کا خیال ہے دنیا کی ہر ایک چیز جو محسوس ہو رہی ہے اپنی شکل اور ہیئت میں کہہ رہی ہے کہ میں ایک وقت میں نہ تھی پھر ہوگئی ایک وقت آئیگا کہ میں نہ ہوں گی پس یہی حکم تمام دنیا کی کائنات کا ہے مگر ان باتوں پر تو کوئی سمجھدار ہی غور کرتا ہے اور بہت سے لوگ اپنے پروردگار کی ملاقات سے بھی منکر ہیں ان کو یقین نہیں آتا کہ کوئی دن ایسا ہوگا کہ تمام لوگ اپنے پروردگار کے حضور پیش ہو کر اپنے اعمال کا نیک و بد بدلہ پائیں گے بھلا یہ لوگ جو ایسی غلطی میں ہیں کہ اعمال کا بدلہ بھی نہیں مانتے کیا انہوں نے ملک میں پھر کر کبھی سیر نہیں کی کہ دیکھتے ان سے پہلے کافر لوگوں کا کیا حال ہوا وہ ان سے زیادہ قوت والے تھے اور انہوں نے زمین کو جوتا اور ان سے زیادہ اس کو آباد کیا تھا مگر آخر کار سب کچھ ضائع اور تباہ ہوگیا کیونکہ انہوں نے اللہ کے سامنے تکبر کیا اور ان کے رسول جو ان کے پاس کھلے کھلے احکام لے کر آئے تو انہوں نے کسی کی نہ سنی پس اپنے کیفر کردار کو پہنچے اللہ نے ان پر ظلم نہ کیا تھا مگر وہ خود اپنے نفسوں پر ظلم کرتے تھے کہ اللہ کے احکام کی تعمیل نہ کرتے بلکہ الٹے مقابلہ کرتے تھے اس لئے چند روزہ انکی پھوں پھاں رہی پھر آخر بقول ؎ تو مشو مغرور بر حلم اللہ دیر گیرد سخت گیرد مر ترا جن لوگوں نے برا کیا تھا انکا انجام یہی برا ہوا اس لئے کہ وہ اللہ کے احکام کی تکذیب کرتے اور ان کی ہنسی اڑا تے تھے چونکہ تمہارے مقابل یہ لوگ ہی انہی بدکرداروں کی روش پر چلتے ہیں اس لئے ان کو تم سناؤ کہ اللہ تعالیٰ ہی مخلوق کو اول بار بناتا ہے پھر اس کو فنا کی طرف لوٹاتا ہے یہ دو مرتبے تو تم بھی مانتے ہو تیسرے کو انہی پر قیاس کرلو کہ پھر تم دوبارہ زندہ ہو کر اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور سنو جس روز قیامت ہوگی مجرم لوگ جو اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں آتے ہر طرح کی بھلائی سے مایوس ہوجائیں گے اور ان کے مصنوعی شریکوں میں سے کوئی ان کا سفارشی نہ ہوگا اور لوگ خود بھی اپنے شریکوں سے منکر ہوجائیں گے کہ ہم تو انکو پوجتے نہ تھے نہ انکو شریک بناتے تھے پھر ہم کو کیوں پھانسا جاتا ہے اور بھی اسی قسم کی بیہودہ بکواس کریں گے مگر انکی شنوائی نہ ہوگی نہ کوئی کسی کا حمایتی ہوگا اس لئے کہ جس روز قیامت قائم ہوگی اس دن سب لوگ متفرق ہوجائینگے مومن الگ کافر الگ صالح الگ فاسق الگ پھر جن لوگوں نے ایمان لا کر نیک عمل ہی کئے ہونگے وہ تو بہشت میں خاطر تواضع کئے جائینگے اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ہوگا اور ہمارے حکموں کی اور آخرت کی ملاقات کی تکذیب کی ہوگی تو وہی لوگ عذاب میں پکڑے جائیں گے پس تم اگر جنت کے یہ مراتب لینا چاہتے ہو تو اس حکم کی تعمیل کرو صبح شام کے وقت اللہ کو پاکی سے یاد کیا کرو کیونکہ وہ سب دنیا کا اصل مالک ہے اور آسمان و زمین میں سب تعریفیں اسی کی ہیں یعنی جس قدر دنیا میں کسی شخص کی کسی کام پر تعریف ہوتی ہے ان سب کا مستحق وہی اللہ تعالیٰ ہے اس لئے تم صبح شام اور دن کے تیسرے پہر کو اور ظہر کے وقت اس کی پاکی بیان کیا کرو دیکھو وہ ایسا قادر قیوم ہے کہ بے جان منی سے زندہ بچہ کو نکالتا ہے اور زندوں سے مردے کو نکالتا ہے یہ واقعات تو تمہارے سامنے گذرتے ہیں اور تم ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہو اور یہ بھی دیکھتے ہو کہ زمین کو خشک ہونے کے بعد از سر نو تازہ کردیتا ہے اور تم کو سمجھاتا ہے کہ اسی طرح تم قبروں سے نکالے جاؤ گے پس تم اس کام کے لئے ابھی سے تیار رہو۔