سورة القصص - آیت 22

وَلَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَاءَ مَدْيَنَ قَالَ عَسَىٰ رَبِّي أَن يَهْدِيَنِي سَوَاءَ السَّبِيلِ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” موسیٰ نے مدین کا رخ کیا تو کہا امید ہے کہ میرا رب مجھے ٹھیک راستے پر ڈال دے گا۔ (٢٢)

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(22۔35) ور جب بالقاء الٰہی قصبہ مدین کی طرف جو فرعونی حدود سے باہر تھا اس نے رخ کیا تو اللہ پر بھروسہ کر کے کہا کہ بہت جلد میرا پروردگار مجھ کو سیدھا راستہ دکھا دے گا جس پر چل کر میں کامیاب ہوجاؤں گا اور کسی ایسی جگہ پر جا پہنچوں گا جہاں پر ان ظالموں کی دستبرد سے محفوظ ہوجاؤں گا اللہ کے بھروسہ پر یکتہ و تنہا چلتے چلتے جب مدین کے پانی پر پہنچا جو آبادی سے فاصلے پر جوہڑوں میں تھا جیسا بنگالہ میں ہوتا ہے تو اس نے اس پانی پر آدمیوں کی بھیڑ پائی جو اپنے مویشیوں کو پانی پلاتے تھے اور ان سے ورے دو عورتیں پائیں جو اپنی بکریوں کو روکے ہوئے تھیں حضرت موسیٰ نے ان دو عورتوں سے کہا تم یہاں کس مطلب کو کھڑی ہو آخر تمہارا کام کیا ہے انہوں نے کہا ہم اپنی بکریوں کو پانی پلانے آئی ہیں مگر ہمارا دستور ہے کہ جب تک یہ مرد چرواہے پانی پلا کر نہ ہٹیں ہم اپنے مویشیوں کو پانی نہیں پلایا کرتیں تاکہ ان مردوں کے دھکا پیل میں نہ آجائیں ہمارے اس کام کو کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا بھائی کوئی نہیں اور ہمارا باپ بہت بوڑھا ہے اس لئے یہ طریقہ اختیار کر رکھا ہے تاکہ کام بھی ہو اور آبرو بھی رہے پس موسیٰ نے یہ جواب ان کا جب سنا تو ازراہ ہمدردی خود ان کے مویشیوں کو پانی پلا دیا پھر درخت کے سایہ کی طرف چلا گیا وہاں بیٹھ کر بارگاہ الہی میں دعا کرتے ہوئے اس نے کہا اے میرے پروردگار ! تو میری حاجتوں کو جانتا ہے اور ان کے پورا کرنے پر بھی قادر ہے پس تو میری حالت کو ملاحطہ فرمالے اور جس چیز کی مجھے حاجت ہے خصوصا کھانے کی اس کو پورا کر دے کیونکہ جس قسم کی کوئی نعمت تو مجھے عطا کرے میں اس کے لئے حاجت مند ہوں اللہ وندا ! تیری شان یہ ہے کہ تو اپنے بندوں کی دعائیں قبول فرماتا ہے اور حسب حکمت ان کے سوالات پورے کردیتا ہے ادھر حضرت موسیٰ نے یہ دعا کی ادھر اللہ نے اس کا سبب یہ بنایا کہ دونوں لڑکیاں جب اپنے باپ کے پاس گئیں اور انہوں نے سارا قصہ اس کو کہہ سنایا تو حضرت شعیب کے دل میں یہ بات آئی کہ ایسے محسن کا شکریہ ادا کرنا چاہئے انہوں نے اپنی انہی لڑکیوں کو حکم دیا کہ اس کو بلا لاؤ ان میں سے ایک بڑی متانت اور حیا کے ساتھ چلتی ہوئی اس موسیٰ کے پاس آئی جیسی شریف لڑکیوں کی عادت ہوتی ہے بڑے وقار اور تمکنت سے چلا کرتی ہیں آکر اس نے کہا اے صاحب اپ نے جو ہم سے سلوک کیا کہ ہمارے مویشیوں کو پانی پلا دیا میرا باپ آپ کو بلاتا ہے کہ جو آپ نے ہم کو پانی پلا دیا ہے اس کا عوض آپ کو دے کیونکہ ہمارے خاندان نبوت کی تعلیم ہے ھل جزاء الاحسان الا الاحسان نیکی کے بدلہ میں تم نیک سلوک ضرور کرنا چاہئے بس آپ چلئے اور بے فکر چلئے پس جب وہ موسیٰ اس شعیب (علیہ السلام) کے پاس آیا اور سارا قصہ اور ماجریٰ مصری اس کو سنایا تو اس نے کہا اللہ کا شکر بجا لا کہ تو ان ظالموں کی قوم سے چھوٹ آیا گو موسیٰ سے خون ہوا تھا مگر شعیب نے انہی کو ظالم کہا اس لئے کہ ایسے بلا قصد خون میں قتل کرنا کسی گورنمنٹ کا قانون نہیں فرعونی جو موسیٰ کے مارنے کے درپے ہوئے تو سمجھو کہ وہ بڑے ظالم تھے یہ باتیں ہنوز ہورہی تھیں کہ حضرت شعیب کی ان دو لڑکیوں میں سے ایک نے کہا بابا جان ! اس کو نوکر رکھ لیجئے اس لئے کہ آپ ضعیف ہیں اور ہم فطرتا کمزور خانگی امور کی انجام دہی کیلئے کوئی نہ کوئی مرد چاہئے اور بہتر سے بہتر جو آپ نوکر رکھیں مضبوط اور دیانتدار ہونا چاہئے اور اس میں یہ دونو وصف ہم نے پائے ہیں حصرت شعیب نے جب موسیٰ کا ماجریٰ سنا تو اس کے دل میں اس کی عظمت خاندانی گھر کرگئی تھی نیز لڑکیاں جوان تھیں داماد کی ضرورت کو ملحوظ خاطر رکھ کر حضرت شعیب نے کہا کہ معمولی اجنبی نوکروں کی طرح رکھنا تو مصلحت اور تیری خاندانی عظمت کے خلاف ہے ہاں میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح تجھ سے کردوں اس شرط پر کہ تو اس کے مہر کے عوض آٹھ سال میرا کام کرے اور اگر تو دس سال پورے کر دے گا تو یہ تیری طرف سے احسان ہوگا اور میں اس کا شاکر ہوں گا مگر میں نہیں چاہتا کہ تجھ پر مشقت ڈالوں انشاء اللہ مجھے تو خوش معاملہ اور نیکو کار پائے گا موسیٰ نے کہا یہ بات تو میرے اور آپ کے درمیان مقرر ہوچکی مگر اتنی گذارش ہے کہ ان دونوں میعادوں میں سے جو معیاد میں پوری کروں تو وہ کافی سمجھی جائے اور زیادہ کے لئے مجھ پر کسی قسم کا جبر نہ ہو اور اللہ تعالیٰ ہمارے کلام پر گواہ اور ذمہ دار پس حضرت موسیٰ نے جب میعاد مقررہ پوری کی اور اپنے اہل کو ساتھ لے چلے تو کوہ طورکی طرف سے ان کو ایک آگ سی نظر پڑی اپنے اہل سے کہا یہاں ٹھیرو میں نے آگ دیکھی ہے میں وہاں جاتا ہوں تاکہ میں اس پر سے کوئی خبر حاصل کروں یا کوئی انگار آگ کا لاؤں تاکہ تم تاپو اور سردی کی تکلیف سے بچو پس جب موسیٰ اس آگ کے پاس آیا تو میدان کے دائیں کنارے کی طرف سے پاک جگہ میں اس کو ایک میں سے آواز آئی کہ اے موسیٰ بے شک میں اللہ رب العالمین ہوں پس تو میری عبادت کیا کر اور یہ کہ اپنی لکڑی کو جو تیرے ہاتھ میں اس وقت ہے پھینک دے پس موسیٰ نے اس کو پھینک دیا مگر جب اس کو ہلتے دیکھا اس طرح کہ گویا وہ پتلا سا سانپ تھا یعنی ایسا پھرتی سے ہلتا تھا جیسا پتلا سانپ سریع الحرکت ہوتا ہے تو موسیٰ پیٹھ پھیر کر بھاگا اور مڑ کر اس نے نہ دیکھا اللہ نے فرمایا اے موسیٰ ! آگے آ اور ڈر نہیں بے شک تو امن میں ہے اور تجھے کسی قسم کا خوف نہیں تو اپنا ہاتھ اپنی گریبان میں داخل کر اور قدرت کا تماشا دیکھ کہ بغیر کسی قسم کی بیماری کے سفید نکلے گا یہ دوسرا معجزہ تیرا ظاہر ہوگا اور جو تو خوف زدہ ہو رہا ہے یہ اس سبب سے ہے کہ تو نے آج تک یہ کیفیت نہ دیکھی تھی سو اس کا علاج یہ ہے کہ اس خوف کے رفع کرنے کے لئے اپنے بازو کو سکیڑ کر مضبوط پکڑ پس یہ دو معجزے فیصلہ کن تیرے پروردگار کے ہاں سے تجھ کو ملے ہیں فرعون اور اس کے امرا شرفا کی طرف جا کچھ شک نہیں کہ وہ بدکار لوگ ہیں ان کو سمجھانے کی ضرورت ہے پس تو ان کو سمجھا موسیٰ نے یہ حکم سن کر باور تو کیا کہ واقعی میرے پروردگار کا حکم ہے مگر اسے پہنچانے کے متعلق اس کو ایک رکاوٹ جو معلوم ہوئی سو عرض کرنے کو کہا اے میرے پروردگار ! میں نے ان میں سے ایک جان کو قتل کیا ہوا ہے اسی خوف سے میں نکل آیا تھا پس اب بھی میں ڈرتا ہوں کہ اس کے بدلے میں مجھے قتل نہ کردیں میرا بھائی ہارون جو مجھ سے زیادہ فصیح اور شستہ گو ہے اس کو میرے ساتھ میرا مددگار بنا کر بھیج جو میری تصدیق کرے میری کچھ تو ڈھارس بندھے مجھے ڈر ہے کہ فرعونی لوگ میری تکذیب کریں گے اور میری طبیعت پر ناگوار اثر ہوگا اللہ نے کہا ہم تیرے بھائی کے ساتھ تجھے قوت بازو عطا کریں گے اور تم کو غلبہ دیں گے پس وہ ہماری آیات معجزات کی وجہ سے تم تک پہنچ بھی نہ سکیں گے کہ تم کو کسی طرح کی تکلیف پہنچائیں یاد رکھو تم اور تمہارے تابع دار ہی غالب ہوں گے