سورة النمل - آیت 65

قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ ۚ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” ان سے فرمائیں کہ اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین کا کوئی غیب نہیں جانتا۔ فوت ہونے والے نہیں جانتے کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ (٦٥)

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(65۔82) اے نبی ! یہ تو کیا ہی دلیل لائیں گے تو ہی ان کو کہہ اور ایک دلیل اور سنا کہ سنو ! معبود برحق کیلئے اپنے عابدوں کے حالات سے اطلاع پانا اور ان کے غیوب سے باخبر ہونا بھی ضروری ہے لیکن جب ہم دنیا کے واقعات پر نظر ڈالتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی غیب نہیں جانتانہ آسمانوں کے فرشتے نہ زمین کے باشندے یہاں تک کہ ان لوگوں کو اپنے حال سے بھی خبر نہیں اور وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ قبروں سے یا نیند سے کب اٹھائے جائیں گے حالانکہ یہ واقعات ان کی ذات پر روزانہ آتے رہتے ہیں یا آنے والے ہیں مگر ان کو خبر تک نہیں بلکہ ان مشرکوں کا علم آخرت یعنی دوسری زندگی کے متعلق ختم ہوچکا ہے موجودہ زندگی کے بعد دوسری زندگی کا وجود ان کی سمجھ میں نہیں آتا بلکہ ان کو ابھی تک اس قیامت میں شک ہے بلکہ گمراہی کے گڑھے میں ایسے گرے ہیں کہ گویا اس آخرت کے وجود سے اندھے ہیں یہی تو وجہ ہے کہ کافر لوگ جب قیامت کے دن اٹھناسنتے ہیں اور جواب معقول نہیں بنتا تو یہ کہتے ہیں کیا جب ہم اور ہمارے باپ دادا مر کر مٹی ہوجائیں گے تو اس سے بعد پھر ہم زمین سے نکالے جائیں گے نہیں نہیں ہرگز نہیں آج سے پہلے بھی ہمیں اور ہمارے باپ دادا کو اس قسم کے وعدے دئیے گئے تھے عرب کے عیسائی پادری اور یہودی علماء سے سننے میں آتا تھا جس کا وقوعہ آج تک نہ ہوسکا پس نتیجہ صاف یہ ہے کہ یہ باتیں محض پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں پہلوں سے پچھلوں نے سن لیں اور پچھلوں نے اور پچھلوں کو سنا دیں پس تو اے نبی ! ایسے جلد بازوں کو کہہ کہ زمین میں جا کر سیر کرو پھر دیکھو کہ مجرموں بدکاروں اور نافرمانوں کا انجام کیسا ہوا ان کو دیکھ کر عبرت حاصل کرو اور ہدایت پاؤ اور سمجھو کہ ؎ تو مشو مغرور بر علم اللہ دیر گیرد سخت گیرد مرترا پس ان کو یہ پیغام سنا دے اور ان کی ہال پر کسی قسم کا غم فکر نہ کر کہ کیوں نہیں ایمان لاتے۔ نہیں لاتے نہ لائیں پڑے اپنا سر کھائیں تیرا کیا لیں گے اور میرا کیا بگاڑیں گے تو ان کی خفیہ سازشوں اور فریبوں سے دل تنگ نہ ہو بلکہ ان سب کا معاملہ اللہ کی سپرد کر اور جو کچھ کہتے ہیں چپکا سا سنتا جا دیکھو تو کیسے عقل مند ہیں کہ بجائے ڈرنے کے کہتے ہیں یہ قیامت کا وعدہ کب ہوگا اگر سچے ہو کر ضرور آئے گی تو بتلاؤ تو ان کو کہہ اصل روز قیامت کی خبر تو کسی مخلوق کو نہیں ہاں ہم یہ بتلا سکتے ہیں کہ عنقریب تمہارے جلدی مانگے ہوئے بعض عذاب تم پر آجائیں گے لیکن علم الٰہی کے مطابق جب ان کا وقت آئے گا تب آئے گا کیونکہ تیرا پروردگار لوگوں کے حال پر بڑا فضل رکھتا ہے وہ ہمیشہ ان کو توبہ کے لئے ڈھیل دیتا ہے لیکن بہت سے لوگ شکر نہیں کرتے مگر یاد رکھیں اس ناشکری کا بدلہ خود ہی بھگتیں گے اور جو جو کچھ یہ لوگ سینوں کے اندر چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں تیرا پروردگار اس کو خوب جانتا ہے اس کے علاوہ اور بھی جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں کہیں چھپی ہوئی چیز ہے وہ کتاب مبین یعنی علم الٰہی میں داخل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا علم سب علموں کی اصل ہے دنیا کے سچے علوم سب اسی سے نکلتے ہیں بے شک اسی کا نتیجہ ہے کہ یہ قرآن مجید بنی اسرائیل کو بہت سی ایسی باتیں بتلاتا ہے جن میں وہ باہمی مختلف ہیں کیونہ یہ قرآن اللہ عالم الغیب کی طرف سے ہے جو سب کچھ جانتا ہے جس کے علم میں سب کچھ ہے پس جو حق ہے وہ بتلا دیتا ہے مثلا بنی اسرائیل کا اس مسئلہ میں سخت اختلاف ہے کہ حضرت مسیح کون تھے یہودی تو ان کو آدمی کہتے اور عیسائی ان کو اللہ جانتے اس میں قرآن مجید نے یہ فیصلہ دیا کہ مسیح بھی اور آدمیوں کی طرح ایک آدمی ہے آدمیت اور انسانیت جیسی اور لوگوں میں ہے ان میں بھی ہے اس مسئلہ میں تو یہودیوں کے حق تک فیصلہ ہوا دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ آدمی ہے تو کس درجہ کا ہے یہودی ان کو معاذ اللہ ناجائز مولود کہتے ہیں اور برے برے الفاظ سے یاد کرتے تھے عیسائی ان کو بڑا مقدس جانتے تھے اس مسئلہ میں قرآن مجید نے یہودیوں کو قائل کیا کہ تمہارا خیال محض غلط ہے حضرت مسیح اللہ کے مقرب بندے تھے غرض اسی طرح کے کئی ایک بے لاگ فیصلے قرآن میدم نے کئے کیونکہ قرآن اللہ کی طرف سے ہے اور کچھ شک نہیں کہ وہ ہدایت ہے اور ماننے والوں کے لئے رحمت پس تو ان کو سنادے اور اللہ کی سپرد کر بے شک ایک روز تیرا پروردگار اپنے حکم کے ساتھ ان میں فیصلہ کرے گا اور وہ سب پر غالب اور بڑا علم والا ہے نہ اس کو کسی کے جتلانے کی حاجت ہے نہ اس کے حکم کو کوئی روک سکتا ہے پس تو اسی مالک الملک اللہ برحق پر بھروسہ کر اور ان کی فضول اور لا یعنی باتوں کا خیال نہ کر کچھ شک نہیں کہ تو واضح حق پر ہے جس کے حق ہونے میں داناؤں کی نظروں میں کوئی خفا نہیں ہاں اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ معاند لوگ ہر ایک راستی کو جو ان کے منشا کے خلاف ہو ناپسند کیا کرتے ہیں ان کو نہ کبھی فائدہ ہوا نہ ہوگا کیونکہ وہ تو زندوں سے نکل کر مردوں میں جا چکے ہیں اس میں کچھ شک نہیں کہ تو زندوں کی ہدایت کیلئے آیا ہے مردوں کو ہدایت نہیں کرسکتا اور نہ بہروں کو سنا سکتا ہے خصوصا جب وہ پیٹھ پھیر کر واپس جاتے ہوں سو یہی کیفیت ان کی ہے کہ گمراہی اور ضد میں ایسے منہمک ہیں کہ بہروں اور اندھوں سے بدترین رہے ہیں اور تو اندھوں کو ان کی گمراہی میں راہ نہیں دکھا سکتا کیونکہ سوتے کو جگانا تو ممکن ہے مگر جاگتا آدمی جو دانستہ سوتا ہے اسے کون جگائے پس تو یاد رکھ کہ تو صرف انہی لوگوں کو سنا سکتا ہے جو ہمارے حکموں کو مانتے ہیں یعنی انہی لوگوں کے دلوں میں تیری تعلیم اثر کرے گی جن کے دلوں میں یہ بات مضبوطی سے جم گئی ہو کہ اگر یہ باتیں اللہ کی طرف سے ثات ہوئیں تو ہم ان کو ضرور مان لیں گے یہ نہ ہو کہ خواہ کچھ ہی ہو کبھی نہ مانیں گے یہی وجہ ہے کہ اس قسم کے لوگ خواہ کتنے ہی مخالف ہوں آخر کار ایک وقت آتا ہے کہ سنتے سنتے وہ تابع فرمان بھی ہوجاتے ہیں شریر اور بد ذات جو ذاتی عداوت رکھتے ہیں ان کا تو کوئی علاج نہیں اور جب ان کی کثرت ضلالت کی وجہ سے ان پر گمراہی کا حکم لگ جائے گا ان کے لئے ایک باکمال انسان زمین میں پیدا کریں گے جو ان کی بے ایمانی کا اظہار ان لفظوں میں کرے گا کہ لوگ ایسے خراب ہوگئے ہیں کہ ہماری یعنی اللہ کی آیات پر ایمان نہیں لاتے تھے اس دابہ کے متعلق بہت سے اقوال ہیں جن میں سے اکثر تو عجائب پرستی سے پر ہیں۔ قرین قیاس وہ قول ہے جو حضرت علی (رض) سے منقول ہے کہ یہ دابہ دم دار نہ ہوگا بلکہ ڈاڑھی والا ہوگا یعنی انسان ہوگا (معالم التنزیل) پس اس روایت کے موافق معنے یہ ہوں گے کہ جب دنیا میں گمراہی بہت زیادہ ہوجائے گی تو اللہ کوئی مرد صالح (مہدی یا مسیح) پیدا کرے گا جو لوگوں کی بے ایمانی پر ملامت کر کے ان کو ہدایت کرے گا اس کے بعد لوگ پھر خراب ہوں گے تو قیامت قائم ہوجائے گی اس کا ذکر و یوم نحشرھم الآیہ میں آیا ہے۔ منہ