وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِفَتَاهُ لَا أَبْرَحُ حَتَّىٰ أَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُبًا
” اور جب موسیٰ نے اپنے جوان ساتھی سے کہا میں نہیں ہٹوں گا یہاں تک کہ دو دریاؤں کے سنگم پر پہنچ جاؤں یا ایک مدت تک چلتا رہوں گا۔“ (٦٠) ”
(60۔82) تمہیں یاد نہیں ؟ موسیٰ جیسے اولو العزم رسول سے کیا کچھ پیش آیا تھا اس وقت کا قصہ بھی یاد ہے جب موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ تم ہمارے ایک بندے خصر کی ملاقات کو جائو اور اس سے عرفان سیکھو تو اس نے اپنے خادم سے کہا کہ چلو میاں مجھے تو حکم ہوا ہے کہ ایک مرد صالح کی تلاش کروں (صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت موسیٰ سلام اللہ علیہ سے ایک مجلس میں سوال ہوا کہ بڑا عالم کون ہے حضرت ممدوح نے فرمایا کہ میں کیونکہ حضرت موصوف کے خیال میں اس وقت یہی تھا کہ چونکہ میں سب لوگوں کی ہدایت کے لئے نبی ہوں اس لئے میں سب سے زیادہ علمدار ہوں مگر اللہ کے علم میں کچھ اور تھا اس لئے ان کو حکم ہوا کہ تم فلاں جنگل میں جائو اور ہمارے فلاں بندے کی صحبت میں رہ کر مزید علم حاصل کرو۔ اس قصے کا یہاں ذکر ہے۔ (منہ) اور یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ وہ مجمع البحرین یعنی دو دریائوں کے ملنے کی جگہ پر رہتا ہے پس میں نے بھی ٹھان لی ہے کہ جب تک مجمع البحرین پر نہ پہنچوں گا نہ ٹھہروں گا یا در صورت پتہ نہ ملنے کے سالہا سال چلتا رہوں گا حتیٰ کہ اسی میں جان دے دوں گا پس وہ دونوں بمقتضائے دست از طلب ندارم تاکام من براید یا تن رسد بجاناں یا جاں زتن براید چل پڑے چلتے چلتے جب مجمع البحرین پر پہنچے تو وہاں سے چلتے ہوئے اپنی مچھلی بھول گئے جو بحکم اللہ تعالیٰ کا ساتھ لے چلے تھے جس کی بابت ان کو حکم تھا کہ جہاں پر یہ تم سے گم ہوگی وہیں وہ مرد اللہ ہوگا تو اس نے سرنگ کی طرح دریا میں اپنا راستہ بنا لیا پس جب وہ دونوں اس مقام سے آگے بڑھے تو حضرت موسیٰ نے اپنے خادم یوشع سے کہا کہ ہمارا ناشتہ تو لائو پہلے ہمیں تو اس سفر میں سخت تکلیف پہنچی ہے لائو کچھ کھا کر آرام کریں وہ بولا آپ نے یہ بھی دیکھا کہ جب ہم اس پتھر کے پاس ٹھیرے تھے تو میں اس مقام پر وہ مچھلی بھول گیا اور مجھے شیطان نے اپ سے اس واقعہ کا یاد دلانا بھلا دیا اور اس مچھلی نے دریا میں اپنی راہ عجب طریق سے بنائی کہ فورا گھس گئی موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ وہی مقام تو ہے جس کو ہم تلاش کر رہے ہیں سو وہ اتنا کہہ کر اپنے قدموں کی کھوج لگاتے ہوئے الٹے پائوں چلے پس جب وہاں مقام موعود پر پہونچے تو انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک صالح بندہ جس کا نام خضر تھا پایا جس کو ہم نے اپنے پاس سے رحمت کا ملہ عنایت کی تھی۔ اور بغیر ذریعہ ظاہری استاد کے اس کو محض اپنے ہاں سے علم سکھایا تھا یعنی معرفت کا ملہ سے حصہ دیا تھا حضرت موسیٰ نے اسے ؎ لیٹا ہوا دیکھ کر سلام علیک کہا اس نے کہا تو کون ہے؟ موسیٰ نے کہا میرا نام موسیٰ ہے کہا بنی اسرائیل کا موسیٰ؟ کہاں ہاں کہا کیوں آیا؟ کہا مجھے آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کا حکم ہوا ہے پس کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں اس شرط پر کہ جو کچھ اللہ نے آپ کو علم و فضل دیا ہے اس میں سے مجھے بھی کچھ سکھائیے؟ اس نے کہا میاں تم کہا؟ تمہارے دماغ میں نبوت کی شان سمائی ہوئی ہے یہاں خاکساری ہی خاکساری ہے شروع شروع میں تو کام آسان معلوم ہوتا ہے مگر انجام کار رقت اور تکلیف ہوتی ہے ؎ کہ عشق آساں نمود اول ولے افتاد مشکلہا ان وجوہ سے مجھے یقین ہے کہ تو ہرگز میرے ساتھ صبر نہیں کرسکے گا۔ اور قرین قیاس بھی یہی ہے کہ تو جس چیز کی اصلیت کو نہیں جانتا اس کے متعلق ظاہر احوال پر کیونکر صبر کرسکے گا بلکہ اسی حکومت شرعیہ کے خیال سے بات بات پر مجھے تنگ کرے گا موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا جناب کا ارشاد بجا ہے بے شک میری نبوت اسی بات کی متقضی ہے کہ میں ہر ایک کام پر جسے ناجائز جانوں ٹوک دوں اور اس کے متعلق حکم اللہ بتائوں مگر جس اللہ نے مجھے منصب نبوت عطا کیا ہے اسی نے آپ کی نسبت بتلایا ہے کہ ؎ بمئے سجادہ رنگیں کن گرت پیر مغاں گوید کہ سالک بے خبر نیود زراہ و رسم منزلہا (اس شعر کو عموماً جہلا بھنگڑ اپنے مریدوں اور دام افتادوں کو سنا کر اپنے ناجائز کاموں پر اعتراضات کرنے سے روک دیا کرتے ہیں حالانکہ ان کا یہ حق نہیں بلکہ یہ شعر ان مرشدوں کے لئے ہے جو مستقل مرشد ہوں یہ تو خود تابع شریعت ہیں ان کو یہ استقلال کہاں بلکہ خلاف شریعت بھی حکم ان کا جاری ہوسکے۔ بلکہ شعر مذکور کا مطلب یہ ہے کہ جو کام اللہ اور اس کے رسول بحکم اللہ فرما دیں خود ہماری طبیعوں کے برخلاف بھی ہو اس کی تعمیل کرنی چاہیے کیونکہ اسرار شریعت کی ہمیں خبر نہیں جیسی کہ ان کو ہے۔ (منہ) یہ حکم آپ ہی جیسے کامل مرشد کے لئے تو ہے پس آپ مجھ کو انشاء اللہ صبر کرنے والا پاویں گے اور میں ہرگز کسی کام میں آپ کی بے فرمانی نہ کروں گا خضر نے کہا پس سن میاں اگر تو طلب صادق سے میرا اتباع کرتا ہے تو کسی بات سے مجھے سوال نہ کرنا یہاں تک کہ میں خود ہی تجھ کو اس کا راز بتائوں پس اس کے بعد دونوں (پیر و مرید) چلے یہاں تک کہ جب دونوں ایک کشتی پر سوار ہوئے تو خصر نے کشتی کو توڑ دیا موسیٰ سے رہا نہ گیا اس نے کہا کیا آپ نے اس کشتی کو اس لئے توڑا ہے کہ اس کے سواروں کو پانی میں غرق کردیں یہ تو آپ نے بڑا خطرناک اور مکروہ کام کیا ہے خضر نے کہا فقیروں کی بات تم بھول گئے کیا میں نے تجھے نہیں کہا تھا کہ تو ہرگز میرے ساتھ صبر نہ کرسکے گا دیکھا نہ سائیں لوگوں کی بات کیسی سچی ہوئی؟ موسیٰ نے بڑی منت سماجت سے عرض کیا کہ حضرت بندہ نواز میری بھول پر مجھے مؤاخذہ نہ فرمائے اور میرے ساتھ اس کام میں سخت گیری نہ کیجئے اس عذر پر خضر نے معافی دی اور از سر نو تنبیہ کردی کہ دیکھنا خبردار رہنا آئندہ کو ایسی بھول چوک نہ ہونے پائے یہ کہہ کر پھر دونوں پیرو مرید یوشع کے جو موسیٰ کا خادم تھا اپنی چلے چلتے چلتے ایک لڑکے سے ملے تو حضرت خصر نے بسم اللہ کر کے اس کو قتل کردیا بس پھر کیا تھا حرارت موسویہ جوش میں آئی موسیٰ نے کہا صاحب ! یہ کیا ماجریٰ ہے مانا کہ آپ بزرگ ہیں پیر صاحب ہیں مگر ایسے بھی کیا ہم نے بھی تو شریعت میں سبق پڑھا ہے کہ ناجائز کام پر خاموش رہنا گونگے شیطان کا کام ہے کیا آپ نے ایک بیگناہ معصوم جان کو بغیر کسی جان کے بدلے کے قتل کردیا ہے آخر اس کی بھی کوئی وجہ ہے کچھ شک نہیں کہ یہ کام تو آپ نے بہت ہی بے جا کیا ہے خضر نے کہا بیٹا ! میں نے تجھ سے نہیں کہا تھا؟ کہ تو میرے ساتھ کسی طرح صبر کرنے کی طاقت نہ رکھے گا موسیٰ بھی عجب کشمکش میں تھے ادھر شریعت کا ادب ہے دماغ میں نبوت کی شان ہے سینہ میں رسالت کا علم ہے ادھر پیر طریقت کا پاس خاطر ہے لیکن آخر اس خیال سے کہ جب اللہ ہی نے مجھے اس کے پاس بھیجا ہے تو اس کی تابعداری بھی حقیقتاً اللہ ہی کی فرمانبرداری ہے آخر بمنت و سماجت اس نے عرض کیا کہ حضرت واقعی مجھ سے بڑی ہی بے ادبی صادر ہوئی مگر چونکہ حضرت کے خدام سے بھی مخفی نہیں کہ میری یہ حرکت محض اخلاص سے ہے اس لئے قابل معافی ہوں پس آپ معاف فرمائیے ہاں اگر آئندہ کسی چیز کا آپ سے سوال کروں تو پھر مجھے اپنی صحبت میں نہ رکھئے گا بے شک میری طرف سے آپ ایک معقول عذر تک پہونچ چکے ہیں۔ خیر یہ نوبت بھی معاف ہوئی پھر چلے یہاں تک کہ ایک بستی پر گذرے تو بوجہ بھوک شدید کے اور اس لحاظ سے کہ ہم ان کے مہمان ہیں اس بستی کے رہنے والوں سے انہوں نے کھانا طلب کیا تو انہوں نے بوجہ بخل کے مہمانی دینے سے انکار کیا اس پر انہوں نے بھی اصرار نہ کیا جس طرح ہوسکا گذارہ کرلیا تھوڑی دیر گذری تو اس بستی میں انہوں نے ایک دیوار پائی جو گرنے کو تھی حضرت خضر نے اس کو ہاتھ سے سیدھا کردیا حضرت موسیٰ کو خیال ہوا کہ یہ عجیب بات ہے کہ مزاج کا انداز ہی نہیں ملتا خشک کو تر اور ترکو خشک کرنا انہی کا کام ہے ادھر پاس ادب بھی مانع کہ سوال ہو تو کیونکر آخر عنوان بدل کر کہا کہ حضرت میں اعتراض یا سوال تو نہیں کرتاکہ حضور نے ایسا کام کیوں کیا ہاں یہ ضرور عرض کرتاہوں کہ ان لوگوں کی بے مروتی حضور سے مخفی نہیں کہ کس طرح انہوں نے ہماری ضیافت اور مہمانی سے جو شرعا و عرفا ان پر واجب تھی انکار کیا پس اگر آپ چاہتے تو اس کام پر کہ حضور نے ان کی دیوار مفت میں سیدھی کردی ہے ان سے کچھ اجرت لے لیتے جو ہمارے زادہ راہ کے لئے کام آتی خضر تو یہ سنتے ہی آگ بگولا ہوگئے کہا لے بیٹا بس اب تو تیری میری جدائی ہے مجھ سے ایسے آدمی کے ساتھ نباہ مشکل ہے جو بار بار سمجھائے بھی نہیں سمجھتا۔ اب میں تجھے ان باتوں کی جن پر تو صبر نہیں کرسکا حقیقت بتلائوں گا تاکہ تیرا اتنا دور دراز کا سفر رائیگاں نہ جائے پس غور سے سن جن کاموں پر تو نے اعتراض کئے تھے میں بھی مانتا ہوں کہ بظاہر وہ محل اعتراض ہی ہیں لیکن ان میں ایک راز بھی مخفی تھا جس پر تجھے اطلاع نہیں تیری میری مثال بالکل ایک جراح کی سی ہے کہ ایک ظاہر ہیں حقیقت حال سے بے خبر جراح کو دیکھو کہ فورا اعتراض کریگا کہ کیوں اتنا ظلم کرتا ہے کہ ناحق اس مظلوم کا اس قدر خون نکال دیا ہے مگر حقیقت حال سے خبردار اس راز کو سمجھ سکتا ہے کہ جراح کا یہ کام کسی اور غرض سے ہے جو اس خون کے نکلنے سے کہیں زیادہ مفید ہے پس سنو ! کہ وہ کشتی جس کو میں نے کسی قدر توڑ دیا تھا وہ غریبوں کی تھی جو دریا میں محنت مزدوری کا کام کرتے تھے پس میں نے چاہا کہ اس کو کسی قدر عیب دار کردوں کیونکہ ان سے آگے سامنے کنارہ پر ایک بادشاہ کا آدمی کھڑا تھا اس کو ملکی ضرورت کیلئے کشتیوں کی ضرورت تھی وہ زبردستی سے ہر ایک کار آمد کشتی کو پکڑ لیتا تھا اس میں محض انہی کا فائدہ تھا کہ اس کشتی کو عیب دار دیکھ کر نہ پکڑے گا اور یہ باچررے اسی سے اپنی روزی کماتے رہیں گے اب اس لڑکے کا حال بھی سن جس کو میں نے تیرے سامنے قتل کیا تھا اس کی وجہ بھی یہ تھی کہ مجھے مکاشفہ میں معلوم ہوا تھا کہ وہ بڑا شریر ہوگا اور اس کے ماں باپ مؤمن ہیں پس ہمیں خوف ہوا کہ ان دونوں (ماں باپ) پر اپنی سر کشی اور کفر سے غالب نہ آجائے اور وہ بے چارے اس کی محبت میں پھنس کر اپنا حال تباہ نہ کرلیں پس ہم نے چاہا یعنی دعا کی کہ ان کا پروردگار یعنی اللہ تعالیٰ ان کو اس بچے کے عوض میں ایک ایسا بچہ عنایت کرے جو سب سے زیادہ پاک طینت اور پاک قرابت رکھنے والا ہو اور جو دیوار تم نے دیکھی تھی وہ اس شہر میں دو یتیموں کی تھی اس کے نیچے انکا خزانہ تھا اور ان کا باپ بڑا نیک صالح تھا پس تیرے پروردگار نے ارادہ کیا اور مجھے مکاشفہ میں اپنے ارادہ پر مطلع کیا کہ یہ دونوں لڑکے اپنی جوانی کو پہنچیں اور اپنا خزانہ نکال لیں ایسا نہ ہو کہ دیوار گر پڑے اور لوگ ان کی بے خبری میں سب کچھ لوٹ کرلے جائیں یہ ماجریٰ محض تیرے پروردگار کی رحمت سے ہے ورنہ میں نے یہ کام اپنی رائے سے نہیں کئے بلکہ اللہ کے بتلانے سے کئے ہیں یہ اصل حقیقت ان کاموں کی جن پر تو صبر نہیں کرسکا۔ چونکہ اللہ نے ایک کام کے لئے الگ الگ آدمی پیدا کئے ہیں جیسا کہ مشہور ہے لکل فن رجال تم کو اللہ نے لوگوں کی ہدایت کے لئے نبی اور رسول بنا کر بھیجا ہے جو بقول شیخ سعدی ؎ دیں جہد میکند کہ بگیرد غرید یق را متعدی ہے تم کو جو علم اللہ نے سکھایا اس میں عامہ مصلحت منظور ہے باقی جو میری کیفیت ہے یہ تو بقول شخصے گفت او گلیبم خویش بروں مے بروز موج صرف لازمی اثر ہے ہاں اگر آپ چند روز اور ٹھیرتے تو صحبت کے اثر سے ایک قوت تم میں پیدا ہوجاتی کہ ایسے مخفی رازوں کی بذریعہ مکاشفات تم کو بھی اطلاع ہوا کرتی مگر جو کام اللہ نے تم سے لینا ہے وہ اور ہے جو اس سے بدرجہا ضروری ہے اس لئے مناسب ہے کہ تم جا کر لوگوں کو احکام نبوت سکھائو اسی میں ان کی بھلائی ہے یہاں دیوانوں کے ساتھ رہ کر کیا کرو گے مصلحت نیست کہ از پردہ پروں افتد راز ورنہ در مجلس نداں خبرے نیست کہ نستو حضرت خضر نے اس باب میں ایک اصول مقرر کردیا کہ جو کچھ کسی نبی یا رسول کو یا کسی ولی یا بزرگ کو امور غیبیہ پر اطلاع ہوتی ہے وہ از خود نہیں ہوتی ہے بلکہ محض اللہ کے بتلانے سے ہوتی پھر جس قدر اللہ بتلا دے اسی قدر ہوتی ہے اس سے زائد نہیں ہوسکتی