سَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَمْ آتَيْنَاهُم مِّنْ آيَةٍ بَيِّنَةٍ ۗ وَمَن يُبَدِّلْ نِعْمَةَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
بنی اسرائیل سے پوچھو کہ ہم نے انہیں کتنی روشن نشانیاں عطا فرمائیں اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو پانے کے بعد بدل دے تو یقیناً اللہ تعالیٰ سخت عذاب والا ہے
(211۔230)۔ ذرہ پوچھ تو بنی اسرائلس سے کہ کتنے ہم نے ان کو احسان خدا وندی کے نشان دئے۔ مگر انہوں نے بجائے شکر کے یہ سمجھا کہ ہماری لیاقت پر ہم کو ملے ہیں اس کی ناشکری کی سزا میں اللہ تعالیٰ نے ان پر وبال نازل کئے کیوں نہ ہو جبکہ عام قاعدہ ہے کہ جو شخص اللہ کی نعمت کو بعد حاصل ہوجانے کے بدلتا ہے یعنی بجائے شکر کے کفر کرتا ہے تو انجام کار سوائے ہلاکت کے اس کو کچھ بھی نصیب نہیں ہوتا اس لئے کہ ایسے نالائقوں کے لئے اللہ تعالیٰ کا عذاب سخت ہے۔ ہمیشہ سے کوتاہ اندیش ظاہر بینی پر مرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کافروں کو دنیا کی زندگی کی نمائش اچھی لگتی ہے اور مسلمانوں سے بسبب ان کی تنگدستی کے مسخری کرتے ہیں اس چند روزہ زندگی اور اس کے تھوڑے سے اسباب کے لحاظ سے ان کو حقیر جانتے اور ان کا نام درویش اور ملانے رکھتے ہیں حالانکہ اللہ سے ڈرنے والے اہل ایمان قیامت کے روز ان سے بلند مرتبہ میں ہوں گے باقی رہی دنیاوی زیب وزینت سو یادر کھیں یہ کام اللہ کے ہیں جس کو چاہتا ہے رزق بے حساب دیتا ہے اس میں اس کی مصلحتیں ہوتی ہیں ” شان نزول کفار عموماً غربا مسلمانوں سے مسخری کرتے اور کہتے تھے کہ یہی لوگ جنت کے مالک ہیں؟ ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی “ یہ کوئی لیاقت کی دلیل نہیں بہت سے نالائق جن کو بات کرنے کا بھی شعور نہیں ان کے آگے بہتیرے ذی شعور خادم بنے پھرتے ہیں کیا یہ نہیں جانتے کہ بناداں آنچناں روزی رساند کہ دانا اندراں حیراں بماند رہا ان کا یہ سوال کہ اللہ خود ہی آکر ان کو ہدائیت کرے سو یہ امر نہ کبھی ہوا اور نہ ہوگا اور نہ ہوسکتا ہے۔ دنیا کی ابتدا تاریخ سے دیکھیں تو ان کو معلوم ہوگا کہ ہمیشہ سے بنی آدم ہی رسول ہو کر آتے رہے۔ اول اول تو سب لوگ ایک ہی دین پر متفق تھے۔ چند دنوں پر انہوں نے اس میں اختلاف کیا کوئی توحید پر رہا کوئی شرک میں پھنسا۔ جب یہ حالت ان کی ہوئی تو اللہ نے بنی آدم سے نبی بھیجے بھلے کاموں پر خوشی سنانے والے اور برے کاموں سے ڈرانے والے اور ان کے ساتھ ایک ایک سچی کتاب بھی نازل کی تاکہ وہ کتاب ان لوگوں کے اختلافوں کا فیصلہ کرنے اسے بہت لوگ مان گئے گو بعض اپنی جہالت پر بھی اڑے رہے خیر وہ زمانہ بھی گذرا بعض ہدائیت پر آئے اور بعض گمراہ رہے۔ طرفہ تو یہ کہ اس زمانہ کے لوگوں کی ابتر حالت دیکھ کر ہم نے ہدایت کے لئے رسول بھیجا تاکہ لوگوں کو راہ راست پر لائے اس کے ماننے میں بھی ان لوگوں نے پس و پیش کیا اور سب سے زیادہ اختلاف رائے اس میں انہیں لوگوں نے کیا جن کو پہلے الہامی کتاب تورات انجیل ملی تھی اور وہ اس سلسلہ رسالت سے واقف ہیں نہ یہ کہ لاعلمی بلکہ بعد پہنچنے نشانات بینہ کے محض اپنے حسد کی وجہ سے منکر ہوئے۔ پس اس کا انجام یہ ہوا کہ یہی لوگ بے نصیب رہے اور اللہ تعالیٰ نے سچائی ماننے والوں کو محض اپنے فضل وکرم سے حق کی وہ راہ دکھائی جس میں یہ لوگ آپس میں مختلف ہورہے ہیں کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ جسے چاہے سیدھی راہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے وہ با اختیار حاکم ہے۔ اور ہمیشہ اپنے اخلاص مندوں کی قدر کیا کرتا ہے۔ ہاں اس میں شک نہیں کہ ہدائیت پر ثابت قدم رہنا ذرا مشکل کام ہے۔ علاوہ تکلیف احکام شرعیہ کے ناا ہلوں سے تکالیف اور اذیتیں بھی اٹھانی پڑتی ہیں جیسی کہ پہلے لوگوں کو ہوئیں اسی طرح تم پر بھی اے مسلمانوں تکالیف آئیں گی اور ضرور آئیں گی کیا تم خیال کئے بیٹھے ہو کہ جنت میں جھٹ سے داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی تم پر وہ تکالیف نہیں آئیں جو تم سے پہلے لوگوں پر آئی تھیں ہر طرح کی سختیاں اور تکلیفیں بھی ان کو پہنچیں اور مخالفوں کے خوف سے کانپتے رہے یہاں تک ان کو تکلیف پہنچی تھی کہ اس زمانہ کے رسول اور اس کے تابعدار مومن بعض دفعہ بول اٹھے تھے کہ اللہ کی مدد جس کا ہم سے وعدہ ہوا ہے کب ہوگی اس حال سے زیادہ مناسب وقت مدد کا کونسا ہوگا۔ اس پر اللہ کی طرف سے بطور تسلی ان سے کہا جاتا تھا کہ خبردار رہو۔ اللہ کی مدد بہت قریب ہے وہ حکمت والا ہے جب مناسب ہوگا مدد پہنچائے گا۔ ایسی تکلیفوں پر صبر تو کجا ابھی تو مسلمانوں پر یہ آئی ہی نہیں۔ ” شان نزول مکہ میں تو صرف مشرکین ہی کی تکلیف تھی مدینہ میں جب آپ نے ہجرت کی تو وہاں پر ایک طرف یہودی اور دوسری طرف چھپے دشمن دنیا دار منافق تیسرے مشرک سب ساتھ مل کر جنگ احزاب میں مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوئے جن میں یہود نصارٰے‘ اہل کتاب باوجود عہد مصالحت کے سب سے پیش قدم تھے ایسے واقعات سے صحابہ کرام کو بڑی تکلیف پہنچی ان کی ہمت بڑھانے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ (معالم) “ ابھی تو اللہ کے فضل سے ہر طرح کی آسائش ہے مال ودولت کا یہ حال ہے کہ تجھ سے از خود ! سوال کرتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کیا خرچ کریں۔ چاندی دیں یا سونا یا حیوانات یا پیداوار ” ایک صحابی عمرو بن جموع نے جو بہت مال دار تھا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ میں کیا خرچ کروں اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی “ تو کہہ دے اس امر سے کیا پوچھو جس کی توفیق ہو خرچ کرلو ہاں اس امر کا لحاظ رکھو کہ بیجا نہ دیا جائے بلکہ جو کچھ خرچ کرنا چاہو وہ پہلے ماں باپ کو دواگر وہ محتاج ہوں (” یہ صدقات سوائے زکوٰۃ کے مراد ہیں۔ زکوٰۃ کا مال ماں باپ کو دینا جائز نہیں “ ) پھر اور قریبیوں یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کو جن کا خرچ منزل تک نہ ہویا کا فی نہ ہو وہ ان کے علاوہ جس کو حقدار سمجھو دیتے رہو تمہارا دینا ضائع نہ ہوگا اس لئے کہ جو کچھ بھی تم نیکی کا کام کرتے ہو اللہ اس کو خوب جانتا ہے اور یہ جو تم بعض اوقات خرچ کرنے سے رکتے ہو اس کی وجہ یہ نہیں کہ خرچ کرنا ہی واقع میں اچھا نہیں بلکہ یہ ناخوشی تمہاری بھی اسی طرح جیسے کہ جنگ کرنا تم پر فرض ہوا ہے اور وہ تم کو ناپسند ہے تمہاری طبیعتوں کا کیا ٹھیک؟ تم تو بسا اوقات ایک چیز کو ناپسند کروحالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہوئی ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک چیز کو پسند کرتے ہو حالانکہ وہ تمہیں مضر ہوتی ہے تمہاری بھلائی برائی اللہ ہی کو معلوم ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ سب چیزوں کو جانتا ہے اور تم تو اپنا نفع نقصان بھی نہیں جانتے۔ ” شان نزول : مشرکین اور کفار ناہنجار کی تکالیف مسلمانوں کے حق میں از حد سرفزوں ہوگئیں تو ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ “ جب تم مسلمانوں کا یہ حال ہے تو ان کافروں کا کیا ٹھکانہ۔ ان کی نادانی کا تو یہی ثبوت کافی ہے کہ بطور طعن کے تجھ ! سے حرام مہینے میں لڑنے کا حکم پوچھتے ہیں یہ سمجھ کر کہ اگر اس نے لڑنا جائز ہے کہہ دیا تو تمام عرب میں اس کی بدنامی کریں گے یہ نہیں جانتے کہ حق بات کے ظاہر کرنے میں کبھی چوکنے کے نہیں۔ تو بے شک کہہ دیکہ اس مہینہ میں لڑنا بڑا گناہ ہے مگر صرف یہی گناہ نہیں بلکہ سیدھی راہ سے تمہاری طرح ٹیڑھے چلنا اور لوگوں کو بھی اللہ کی راہ دین اسلام سے اور مسجد حرام یعنی کعبہ شریف میں نماز پڑھنے سے روکنا اور اس کے حکموں کا انکار کرنا اور اس مسجد کے رہنے والوں کو محض اسلام کی وجہ سے اس سے نکال دینا اور ناحق تنگ کرنا یہ سب سے بڑا گناہ ہے اور فتنہ فساد کرنا جو تم کررہے ہو۔ قتل قتال سے بھی بڑا ہے پھر کسی منہ سے کیسے سوال کرتے ہیں اور ذرہ سی مسلمانوں کی غلطی کو بات کا بتنگڑ بنارہی ہیں اور سنو مسلمانو ! کافرلوگ اسی گزشتہ پر بس نہیں کریں گے بلکہ ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ تم کو تمہارے دین اسلام سے بھی پھیردیں مگر کیا یہ کام کرسکتے ہیں ہاں اگر طاقت رکھیں تو ضرورہی کریں لیکن انشاء اللہ کبھی بھی ان کو اس امر کی طاقت نہ ہوگی۔ ہاں تمہیں بھی آگاہ رہنا چاہئے اور ہمارا اعلان سن رکھنا چاہئے کہ جو لوگ تم میں سے اپنا دین اسلام چھوڑ کر کفر کی حالت میں مریں گے تو ان کے نیک کام جس قدر کہ ہوں گے دنیا اور آخرت میں سب کے سب ضائع ہوجاویں گے۔ اور آخر کاریہ لوگ آگ ہی کے لائق ہونگے جس میں ہیشہ تک رہیں گے ” صحابہ کرام (رض) سے ایک موقع پر بوجہ غلطی کے یکم رجب میں (جو حرام کا مہینہ تھا) جنگ واقع ہوگئی اس پر مشرکین عرب نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ پر طعن کرنے شروع کئے کیونکہ ان مہینوں میں لڑنا پہلے سے منع چلا آیا تھا اور عرب میں دستور عام تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی ١٢ ک۔ … اسؔ میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ یہ سوال کن لوگوں نے کیا تھا بعض اہل اسلام کو سائل بتاتے ہیں اور بعض کفار کو میرے نزدیک آخری صورت یہ ہے اس لئے کہ آئندہ کے لفظوں میں بطور عار دلانے کے جو الفاظ فرمائے گئے ان کے مصداق کفار ہی ہوسکتے ہیں مسلمان نہیں “ ہاں جو لوگ اللہ کی توحید پر ایمان لائے اور اگر کفار نا ہنجار تنگ کریں تو بجائے دین چھوڑنے کے اپنا گھر اور وطن مالوف چھوڑ کر ہجرت کر آئے اور اگر اس پر بھی دشمنوں نے پیچھا نہ چھوڑا تو ایسے دشمنوں سے اللہ کے راہ میں خوب لڑنے انہی کو اللہ کی رحمت کی امید ہے اور اللہ کی طرف سے علاوہ ان کی مزدوری کے بہت سی خلعتیں بھی ملیں گی اس لئے کہ اللہ تو بڑا بخشنے والا مہربان ہے یہ بھی اس کی ایک مہربانی ہے جو ان کو ایسی سمجھ دے رکھی ہے کہ باوجود ایسی جہالت سابقہ کے جو کچھ کرتے ہیں پوچھ کر ہی کرتے ہیں گو وہ کام ان کی قدیمی عادت میں ہی کیوں نہ ہو دیکھو تو باوجود عادت قدیمہ کے تجھ سے شراب اور جوئے کا مسئلہ پوچھتے ہیں کہ مفید ہے یا نہیں ” شان نزول :۔ حضرت عمر اور معاذ بن جبل اور بعض انصار نے شراب اور جوائے کی بابت سوال کئے کہ حضرت ان کی بابت ہمیں حکم دیجئے۔ یہ تو بہت ہی مذموم فعل ہیں ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی ١٢ م راقم کہتا ہے چونکہ عرب میں مثل یورپ کے شراب کی از حد کثرت تھیں اس لئے بتدریج ہٹانے کی غرض سے اس آیت میں سہل طریق برتا گیا۔ جب وہ لوگ متنفر ہوئے تو اسی کو فعل شیطانی کہہ کر سختی سے روکا گیا۔ “ تو کہہ دے کہ ان دونو میں بڑا گناہ ہے اور کسی قدر لوگوں کے نفعے بھی ہیں کہ ایک قسم کا چند روزہ فربہ پن اور غیر معمولی تموّل ہوجاتا ہے مگر باوجود اس کے ان کو نہ کرنا چاہئے۔ اس لئے کہ ان میں قباحتیں بہت ہیں اور گناہ بھی ان کا نفع سے بڑا ہے اہل ایمان سے امید قوی ہے کہ ایسے افعال شنیعہ کے کرنے میں ہرگز پیش قدمی نہ کریں گے اس لئے کہ وہ ہمیشہ فائدہ اخروی ملحوظ رکھا کرتے ہیں جو ان میں مفقود ہے ان کی اس خصلت حمیدہ کی یہ قوی دلیل ہے کہ جب سنتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا بھی ایک ضروری امر ہے تو برمناو رغبت تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں کتنا رکھیں اور کتنا دیں جس قدر ارشاد ہو اتنا ہی دیں ” شان نزول : آنحضرتﷺ نے جب صدقہ کی ترغیب دی تو بعض صحابہ نے آپ سے پوچھا کہ حضرت کتنا مال خرچ کریں یعنی کس قدر دیں اور کس قدر رکھیں؟ ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی “ تو ایسے پاک باطنوں سے کہہ دے کہ سارا مال خرچ کرنے میں اگرچہ اعلیٰ درجہ حاصل ہوتا ہے لیکن ہر ایک آدمی اس کا متحمل نہیں ہوتا۔ اس لئے تم اپنی حاجت سے زائد یعنی مال کا چالیسواں حصہ خرچ کرو اسی طرح اللہ تمہارے لئے اپنے احکام بیان کرتا ہے اور کرتا رہے گا۔ تاکہ تم دنیا اور آخرت میں غور کرو اور فانی کو ترک کرکے باقی کو اختیار کرو کیا اس دنیا کے فانی ہونے میں بھی کسی کو شک ہے؟ کیا نہیں دیکھتے کہ بہت سے لوگ ان کے دیکھتے دیکھتے جارہے ہیں اور اپنی چھوٹی چھوٹی اولاد جن کو نہائیت ہی شفقت سے رکھتے تھے اپنے پیچھے یتیم چھوڑ جاتے ہیں اور یہ لوگ نہایت اخلاص سے ان یتیموں کی بابت تجھ ! سے سوال کرتے ہیں کہ کس طرح اس نے معاملہ کریں۔ ” ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جب یتیموں کے مال کھانے کی ممانعت نازل ہوئی تو جن لوگوں کے پاس یتیم بچے رہا کرتے تھے اور وہ ان کو اپنے کھانے پینے میں کسی قدر خرچ لے کر شامل کرلیتے تھے انہوں نے یہ سمجھا کہ ایسا نہ ہو کہ ہم کچھ ان کا غلطی سے کھالیں۔ ان یتیموں کے کھانے کا بندوبست علیحدہ کردیا۔ اس عیحدے گی میں یتیموں کا خرچ زائد ہونے لگا۔ تو انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا تو ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی “ تو کہہ دے بہر حال ان کی اصلاح کرنا اچھا ہے اور اگر ان کو اپنے ساتھ ہی ملالو اور ساتھ ان کو کھانا کھلاؤ گو ان سے اس کھانے دام بھی وصول کرو تو بھی کوئی حرج نہیں اس لئے کہ وہ تمہارے بھائی ہیں اگر تمہاری نیت میں کوئی فساد ہوگا کہ ان کو ساتھ ملاکر ان کا مال کھا جائیں تو اس کی سزا پاؤ گے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کو مفسد اور مصلح سب معلوم ہیں۔ سب کو ان کی نیت کے موافق بدلہ دے گا۔ غور کرو تو یتیموں کے ساتھ ملانے کا حکم محض تمہاری ہی آسائش کے لئے ہے۔ ورنہ اگر اللہ چاہتا تو تم کو سخت تکلیف میں ڈال دیتا کہ بالکل ان سے کسی طرح کا ملنا ملانا ایک جگہ بیٹھ کر کھانا بھی منع کردیتا ہے جس سے تمہیں بڑی دقت ہوتی۔ آخر وہ تمہارے بھائی ہیں بے شک اللہ بڑا زبردست حکمت والا ہے۔ یہ بھی اسی کی حکمت سے ہے کہ تم کو ایسے حکم دیتا ہے کہ تم خود بھی مشرک نہ بنو اور مشرک عورتوں سے نکاح بھی نہ کرو۔ جب تک وہ مسلمان نہ ہوں کیونکہ بیوی خاوند میں تفرقہ مذہبی خاص کر توحید اور شرک کا اختلاف مقصود خانہ واری میں مخل ہے ہمیشہ کے جھگڑے اور فساد دور تک نوبت پہنچاتے ہیں۔ اگر مقصود خانہ داری حاصل کرنا ہو تو کسی مؤمن موحدہ عورت سے نکاح کرو۔ اس لئے کہ کمینی لونڈی کو بھلی ایماندارمشرکہ خاندانی سے بہتر ہے۔ گو بوجہ حسن ظاہری وہ مشرکہ تم کو بھلی معلوم ہو اس میں تمہاری خانہ داری مقصود خوب حاصل ہوگا۔ اس میں تم کو ہمیشہ کی دقت ہوگی ایسا ہی یہ بھی تم کو ضروری ہے کہ اپنی لڑکیوں کو مشرکوں سے نہ بیاہ ہوکسی ایماندار نیک بخت سے بیاہ دیا کرو۔ گو وہ غلام ہی ہو۔ کیونکہ غلام مؤمن دیندار، مشرک بےدین سے اچھا ہے۔ اگرچہ وہ مشرک بوجہ اپنی ظاہری وجاہت کے تم کو بھلا معلوم ہو۔ ” ابومرثد صحابی نے ایک عورت خوبصورت مشرکہ سے نکاح کرنے کی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت چاہی اس پر یہ آیت نازل ہوئی ١٢ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نکاح کے متعلق ایک عمدہ اصول بتلایا ہے کہ دامادی کی بابت ہمیشہ دین داروں کو ترجیح ہونی چاہیے۔ مگر افسوس کہ مسلمانوں نے جہاں اور احکام خداوندی سے غفلت کی ہیں معقول اصول سے بھی بے پروائی کی۔ کیسا ہی ہو۔ مال دار ہو۔ ہمیشہ قابل ترجیح سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے بہت سے نالائقوں سے پالا پڑ کر تمام عمر لڑکی کی جہنم میں گذرتی ہے مگر یہ سب کام انہیں لوگوں کے ہیں جن کی نسبت اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے فرمایا وفَرِحُوْا بالْحَیٰوۃِ الدُّیْنَا “ اس لئے کہ یہ مشرک رشتہ دار لوگ عذاب آگ کی طرف تم کو بلاتے ہیں اور اللہ تو محض اپنی مہربانی سے تم کو بہشت اور بخشش کی طرف بلاتا ہے اور ہمیشہ لوگوں کے لئے اپنے احکام کھول کر بیان کرتا ہے۔ تاکہ وہ نصیحت پاویں۔ اور ہر اک امر دریافت کرکے عمل کیا کریں۔ جیسا کہ یہ مسلمان لوگ تجھ سے حیض والی عورتوں کا مسئلہ دریافت کرتے ہیں کہ حیض کے دنوں میں ان عورتوں سے کیسا برتاؤ کریں؟ یہودیوں کی طرح بالکل علیحدہ ہی کردیں یا کچھ میل جول بھی رکھیں؟ ” شان نزول :۔ یہودیوں میں دستور تھا کہ جب عورت کو حیض آتا تو اس کو اپنے سے بالکل علیحدہ ہی کردیتے حتے کہ کھانا پینا سب اس کا الگ کردیتے صحابہ نے بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی معالم “ تو کہہ دے میل جول میں تو کوئی حرج نہیں بے شک ساتھ کھلاؤ پلاؤ ہاں حیض ایک قسم کی ناپاکی بے شک ہے سو حیض کی مدۃ میں عورتوں کے ساتھ ملاپ کرنے سے علیحدہ رہو اور ان سے اس حالت میں صحبت تو کجا قریب بھی نہ جاؤ جب تک کہ حیض کی ناپاکی سے پاک نہ ہوجائیں۔ پھر جب پاک ہوجائیں اور غسل بھی کرلیں تو بے شک ان سے ملاپ کرو۔ مگر ایسا ہی وحشیوں کی طرح بے سوچے سمجھے جہاں طبیعت چاہے نہ کرنے لگو بلکہ جہاں سے اللہ نے تم کو حکم دیا ہے یعنی جو اولاد پیدا ہونے کا قدرتی راستہ ہے اور اس ملاپ سے غرض یہ رکھو کہ اللہ تعالیٰ اولاد صالح عنائیت کرے اور اس اولاد طلبی میں کفر شرک میں نہ پھنس جاؤ بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف جھکو اس لئے کہ اللہ جھکنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ حیض کے دنوں میں بند کرتا صرف اسی وجہ سے ہے کہ یہ خون ناپاک اور عورت کے رحم کی غلاظت ہوتا ہے اس کا بہہ جانا ہی مناسب ہے ورنہ عورتیں تمہاری کھیتی ہیں سو جیسا کھیتوں میں بیج بوتے ہو اسی طرح اپنی عورتوں کی کھیتیوں کو جس طرح چاہو حسب منشا آباد کرو اولاد کے قابل بناؤ ” شان نزول :۔ یہودیوں کا خیال تھا کہ اگر پیچھے کھڑے ہو کر عورت کے موضع مخصوص میں جماع کریں تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے۔ ان کے اس خیال کی تغلیط کو یہ آیت نازل ہوئی ١٢ ف۔ راقم کہتا ہے اس سے یہ سمجھنا کہ عورت کے پیچھے میں دخول کرنا بھی جائز ہے بڑی غلط فہمی ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے حرث (کھیتی) سے عورت کو تشبیہہ دی ہے اور حرث جب ہی ہوگی کہ ایسے موضع میں دخول ہو جہاں سے پیداوار کی بھی امید ہو۔ اور پیچھے میں تو سب کچھ ضائع ہوتا ہے اور علاوہ اس کے عورت کو بجائے لذت کے سخت تکلیف پہنچتی ہے۔ کیونکہ وہ سوراخ اس غرض کے لئے نہیں بنا۔ اس لئے ایسا کرنا آدمیت کے خلاف ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو شخص عورت کے پیچھے میں جماع کرے اللہ تعالیٰ اس پر لعنت کرتا ہے “ اور محض شہوت رانی میں نہ لگے رہو۔ بلکہ اپنی جانوں کے لئے آئندہ کی فکر کرو۔ اور ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہو۔ اور صدق دل سے جان رکھو کہ ایک روز تم کو اس سے ملنا ہے اور تو اے رسول (علیہ السلام) احکام خداوندی ماننے والوں کو خوشخبری سنا جو ہر وقت اور ہر حال میں قانون شریعت کا لحاظ رکھتے ہیں اور ان کو یہ بھی سمجھا دے کہ تمہارے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کو اپنی قسموں کا بہانہ نہ بنایا کرو کہ قسموں کی آڑ میں نیکی کرنی چھوڑ دو۔ اور پرہیز گاری کے کام نہ کرو۔ اور لوگوں میں فتنہ فساد کے وقت صلح نہ کراؤ اور جو اس سے پہلے قسمیں کھاچکے ہو ان کی بابت جناب باری میں عذر کرو وہ معاف کریگا۔ اس لئے کہ اللہ سب کی باتیں سننے والا اور سب کے دلوں کے حالات جاننے والا ہے۔ اگر ایسی قسموں کو جن میں نیکی کے کام کرنے سے روکنا ہو توڑ کر کفارہ دیدو گے تو کوئی مواخذہ نہ کرے گا جیسا کہ بلاقصد قسمیں کھانے پر اللہ تعالیٰ تم کو نہیں پکڑے گا۔ جیسے عام لوگ واللہ با للہ کہا کرتے ہیں۔ ہاں جو دل سے پورے طور پر تم نے قسمیں کھائی ہیں کہ واللہ باللہ ضرور ایسا ہی کرنگا ان پر مواخذہ کرے گا اور مواخذہ میں بھی یہ سہولت ہوگی کہ کفارہ دینے سے تمہارے گناہ بخشے جائیں گے کیونکہ اللہ بڑا بخشنے والا اور حلم والا ہی چھچھورے کم حوصلے حاکموں کی طرح تھوڑے سے قصور پر جلدی سے نہیں پکڑتا۔ ” دو صحابہ کو آپس میں کچھ رنج ہوا اس پر ایک نے قسم کھالی کہ نہ تو میں تیرے مکان پر آئوں گا۔ اور نہ کبھی تیرے معاملہ میں دخل دوں گا۔ چونکہ آپس کا رشتہ تھا۔ جب کوئی اس کی بابت اس کو کہے تو وہ کہہ دے کہ میں اس کے معاملہ میں دخیل نہ ہوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم “ یہ بھی اس کی مہربانی کا اثر ہے کہ مخلوق کو ظلم زیادتی سے روکتا اور ان کو ان کی عادات قبیحہ سے جو انہیں کے لئے مضر ہیں منع کرتا ہے۔ چنانچہ تمہاری عادت ابلا کے متعلق جو بڑی قبیحہ ہے اس سے عورت پر بلا وجہ از حد ظلم ہوتے ہیں۔ اس لئے اس کے متعلق قاعدہ بتایا جاتا ہے کہ جو لوگ ! اپنی بیویوں سے ایلا کرتے ہیں وہ بیوئییں چار مہینوں تک ان کی انتظاری میں ٹھیریں پھر اس سے بعد اگر وہ اپنے کہے سے باز آویں اور آرام چین سے رہیں تو اللہ بھی ان کے سابقہ قصور معاف کردے گا اس لئے کہ اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے ” عرب کے لوگوں کا دستور تھا کہ عورت سے خفا ہو کر اس کے قریب جانے کی قسم کھا لیتے پھر نہ اسے چھوڑتے اور نہ اسے آباد ہی کرتے۔ بلکہ ہمیشہ کو تکلیف پہنچاتے۔ ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی “ ”(جو لوگ اپنی بیویوں سے ایلا کرتے ہیں) اس آیت میں مسئلہ ایلا کا شروع ہوا ہے۔ ایلا کے معنی قسم کے ہیں۔ عرب میں یہ ایک دستور قیحے تھا کہ عورت کو تکلیف پہونچانے کی غرض سے قسم کھا لیتے کہ میں تیرے پاس نہیں آئوں گا۔ اس سے نہ تو وہ عورت اس خاوند سے مطلقہ ہوتی اور نہ آباد ہی رہتی۔ اسلام نے جہاں ان کی اور خرابیوں کی اصلاح کی تھی اس کی اصلاح بھی مناسب کردی کہ ایسے ظالموں کے لئے ایک مدت مقرر کردی کہ جو لوگ ایسی بیہودگی کریں ان کو ہمیشہ تک کامیابی نہ ہو۔ کہ اپنی مرضی کے مطابق عورتوں کو ستائیں بلکہ چار مہینے تک عورتیں ان کی انتظاری کریں اگر وہ رجوع کر آویں تو خیر و اس کی عورت اور وہ اس کا خاوند۔ اور اگر چار مہینے تک رجوع نہ کریں تو طلاق ہوجائے گی۔ آگے پھر کسی قدر علماء کا اختلاف ہے۔ کہ چار مہینے گزرنے سے طلاق خودبخود ہوجائے گی یا قاضی یا حاکم وقت کی بھی حاجت ہے۔ سو خیر یہ کچھ اختلاف ایسا نہیں جو مقصود قرآنی میں خلل انداز ہو۔ غرض تو یہ ہے کہ عورت سے مظالم جابرانہ کو دفع کیا جاوے۔ رہی یہ بحث کہ ایلا کے احکام مختلفہ کیا ہیں؟ اور ان میں ہر ایک کے دلائل کیا ہیں؟ سو کتب فقہ میں سب مذکور ہیں “ ” احق میں یہاں تفصیل نہیں جیسے کہ حدیث کے لفظ فان جاء صاحبھا فھوا حق بھا میں نہیں۔ “ اور اگر چھوڑنے کی ہی ٹھان لیں اور بعد چار مہینے کے بھی صلح صفائی نہ کریں اور منہ سے طلاق دیں یا دل میں اس کو چھپا دیں تو بے شک اللہ سنتا اور جانتا ہے ان کی طلاق ہوجائے گی۔ اور وہ عورتیں مطلقہ کہلائیں گی اور مطلقہ عورتیں تین حیضوں تک اپنے کو ٹھیرائے رکھیں جب تک وہ تین حیضوں سے بعد طلاق پاک نہ ہولیں نکاح ثانی نہ کریں۔ اگر بوجہ پیرانہ سالی کے حیض نہ آوے تو تین مہینے تک ٹھہریں اور اگر بوجہ حمل خون بند رہے تو وضع حمل تک انتظار کریں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ان کے پیٹوں میں پیدا کر رکھا ہوا ہے اس کو بغرض جلدی نکاح نہ چھپاویں۔ اگر اللہ کو مانتی ہیں اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں تو ایسا ہی کریں اور خاوند ان کے جنہوں نے اب تک ایک یا دو ہی طلاقیں دی ہیں اس مدت کے اندر اندر پھیرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اگر ان کی غرض مصالحت کی ہو۔ بعد اس مصالحت کے تکلیف نہ دیں بلکہ جان لیں کہ جیسے عورتوں پر مردوں کے حقوق ہیں ویسے ہی عورتوں کے بھی ان مردوں پر دستور کے موافق حقوق ہیں یہ نہیں کہ اپنے حقوق تو پورے لیں اور ان کے حقوق کی پرواہ نہ کریں حالانکہ مردوں کو عورتوں پر ایک قسم کی برتری ضرور ہے۔ یہ ان کے حاکم ہیں اور وہ ان کی گویا محکوم۔ پھر باوجود اس برتری کے ان پر ظلم کرنا گویا شان حاکمی کے خلاف ہے اور اب بھی اگر ان کے حقوق میں غفلت کریں گے تو سن لیں کہ اللہ تعالیٰ بھی ان پر غالب ہے ان کی طرف سے خود بدلہ لے گا اور بڑی حکمت والا ہے کسی ایسے چکر میں پھنسائے گا کہ جہاں کا ان کو وہم وگمان بھی نہ ہو۔ یہ نہیں کہ ہر ایک خاوند بعد طلاق روک سکتا ہے نہیں بلکہ جیسا ہم پہلے اشارہ کر آئے ہیں روکنے والی رجعی طلاقیں دو تک ہیں ! ” شان نزول :۔ عرب میں نہائت قبیح دستور تھا کہ عورت کی طلاق کی کوئی حد نہ تھی طلاق سے جب عدت گزرنے کو آوے تو خاوند رجوع کرلیتے اور پھر کچھ مدت بعد طلاق دے کر اسے خراب کرتے۔ پھر عدت کے قریب زبانی دارو مدار سے رجوع کرلیتے۔ جہاں تک چاہتے عورت کو تنگ کرتے رہتے ان کے منع کرنے کو یہ آیت نازل ہوئی کہ روکنے والی دو ہی طلاقیں ہیں اور بس۔ “ ” (طلاق) اس مسئلہ طلاق پر مخالفین اسلام خفا ہیں جیسے کہ تعدد ازواج پر ناراض۔ مگر دراصل وہی مثل ہے ع گل ست سعدی و در چشم دشمنان خارست۔ تعدد ازواج کا جواب تو ہم اسی موقع پر دیں گے جہاں اس حکم کی آیت آئے گی۔ اور یہ بتلا دیں گے کہ اسلامی مسئلہ تعدد ازواج ہی عقل سلیم اور فطرت انسانی اور نظام عالم کے مطابق ہے۔ بالفعل یہاں طلاق کے ذکر کا موقع ہے۔ مخالف کہتے ہیں کہ طلاق کا مسئلہ رواج دینا اخلاق سے خلاف ہے جو اسلام نے کیا۔ کیونکہ جو شخص کسی دوسرے سے کچھ وقت بھی بسر کرے اور ہم راز بنائے اس کو ایسا چھوڑنا کہ پھر اس سے ملاپ ہی نہ ہو اخلاق سے کس قدر دور ہے۔ میں کہتا ہوں جس بنا پر اسلام نے اس مسئلہ کی اجازت دی ہے۔ وہ انسانی طبیعت کے موافق اور بالکل اصول معاشرت کے مطابق ہے۔ ہر ایک شخص اپنے خانگی معاملات پر غور کرنے سے اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ کوئی عورت تو ایسی ہوتی کہ ہمہ تن خاوند کی محبہ‘ پس و پیش یکساں خیر خواہ۔ حکم کی فرمانبردار۔ صورت کی دلکش۔ بخلاف اس کے بعض ایسی بھی ہوں جن کی مختصر کیفیت سعدی کے اس شعر میں ہے ؎ تھی پائے رفتن بہ از کفش تنگ۔ بلائے سفر بہ کہ درخانہ جنگ۔ زبان دراز۔ بدخو۔ منافق۔ بنے ہوئے گھر کو برباد کرنے والی۔ صورت کریہہ منظر۔ ایسی صورت میں آپ ہی بتلا سکتے ہیں کہ شخص مذکور کی عورت موصوفہ سے معاشرت کیسی ہوگی۔ دوسرا نکاح کرے تو بھی آپ صاحبان کی اجازت نہیں۔ ایسی بلا کے دفعیہ کو اسلام نے ایک اصول قائم کیا ہے جو نہایت ہی حسن معاشرت پر مبنی ہے وہ طلاق ہے۔ یہ بھی ایک ہی دفعہ نہیں بلکہ اس کا بھی وہ طریق رکھا ہے کہ اگر معمولی سی خفگی ہو تو دور ہوجاوے۔ اور باہمی سلوک بھی ممکن ہو۔ وہ یہ کہ ایک مہینے ایک طلاق دیوے وہ بھی ایسے وقت میں دیوے جس وقت طبعی نفرت بھی اس عورت سے نہ ہو یعنی طہر (بندش خون) کے زمانہ میں دے جس وقت عموماً عورت اپنے آپ کو حتے المقدور دلکش بناتی ہے اس کے بعد بھی مرد کو اختیار ہے کہ اپنے اس کہنے سے پھرجائے اور عورت کو بلا کسی سزا دہی کے اپنے پاس بلالے اگر ایک مہینے میں بھی اس کی خفگی زائل نہ ہوئی تو دوسرے مہینے میں دوسری طلاق دیوے۔ پھر بھی اسے مثل سابق واپس بلانے کا اختیار ہے اور اس فعل پر بھی کوئی سزا نہیں۔ اگر اتنی مدت میں بھی اس کی ناراضگی نہ جائے اور صفائی نہ ہو تو اب اسے تیسری طلاق دینے کا اختیار ہے۔ پس اس طلاق سے (جس کی حد پر پہنچنے سے ان کی صفائی سے بھی مایوسی ہوتی ہے) بالکل علیحدگی ہوجائے گی چونکہ اتنی مدت مدید میں خاوند نے اپنی خفگی کو دور نہیں کیا اس لئے اگر وہ بعد طلاق ثانی کے اس کو واپس لانا چاہے تو اس کے لئے بدون ایک سزا بھگتنے کے یہ کام درست نہ ہوگا۔ وہ یہ کہ جب تک وہ عورت دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرے اور وہ اپنی مرضی سے اس کو طلاق نہ دے اس کے قبضے میں نہیں آسکتی تاکہ خاوند ثانی کی غیرت اس کے حق میں ایک قسم کی سزا ہو کہ اس کی ہٹ سے اس کی بیوی نے دوسرے کا منہ دیکھا۔ حدیث میں آیا ہے کہ جس کی عورت ناراضگی کا کام کرے تو اسے زبان سے سمجھائے اگر نہ مانے تو اس کی طرف پیٹھ پھیر کر سوئے۔ اگر پھر بھی نہ مانے تو اس سے بسترا الگ کرلے۔ اگر اب بھی نہ مانے تو کسی قدر خفیف سا مارے اگر پھر بھی باز نہ آئے تو طلاق دے۔ اس تفصیل سے مخالفین کے سوالات جڑ سے کٹ گئے۔ اس سے عمدہ حسن معاشرت بھی ہے؟ اور ہوسکتی ہے؟ ؎ بس تنگ نہ کر ناصح نادان مجھے اتنا یا چل کے دکھاوے دہن ایسا کمر ایسی “ پھر بعد اس کے یا تو اس کو روک لینے کا حق ہے۔ یا بھلائی سے رخصت کرنے کا حکم اور بھلائی میں یہ بھی داخل ہے۔ کہ اپنے دیے ہوئے میں سے کچھ نہ لو۔ ہاں جب دونوں (خاوند بیوی) یہ جانیں کہ ہم سے اللہ کے احکام متعلقہ زوجیت ادا نہیں ہونگے اور اس ملاپ میں ہمیں ہمیشہ تکلیف ہی رہے گی پھر اس صورت میں تم برادری کے لوگ بھی اگر بقرائین موجودہ یہ جانو کہ واقعی یہ دونوں خاوند بیوی احکام خدا وندی متعلقہ خانہ داری ادا نہیں کریں گے تو ایسی صورت میں ان پر گناہ نہیں کہ عورت اپنے پاس سے کچھ دے کر رخصت لے (اس کا نام خلع ہے۔) یہ احکام اور اسی کی مثل اور بھی گویا حدود خداوندی ہیں پس ان سے نہ گذرو بلکہ بدل وجان ان پر کاربند رہو۔ اور جان لو کہ جو لوگ اللہ کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں وہی ظالم ہیں اپنے ظلم کا بدلہ بے شک پاویں گے۔ پھر بعد ان دو طلاقوں کے جن میں خاوند عورت کو روک سکتا ہے اگر تیسری طلاق اس کو دے تو وہ اس کو حلال نہ ہوگی جب تک کہ اس کے سوا اور خاوند سے نکاح نہ کرے۔ پھر اگر وہ دوسرا خاوند اپنی مرضی سے اس کو طلاق دے اور عدت بھی گذر جائے تو ان دونوں کو آپس میں ملاپ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر جانیں کہ احکام خداوندی متعلقہ زوجیت ادا کرسکیں گے ایسا نہ ہو کہ مثل سابق جوت پیزار کھڑکے یہ احکام مذکورہ گو یا اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں۔ جیسا کہ بادشاہوں کے احکام متعلق رعیت ہوتے ہیں جاننے والوں کے لئے کھول کھول کر بیان کرتا ہے جو اس امر کو جانتے ہیں کہ احکام خدا وندی قابل تسلیم اور تعمیل ہوتے ہیں انہیں کو اس بیان سے فائدہ ہوتا ہے۔