لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ
صرف نیکی مشرق و مغرب کی طرف منہ کرنے ہی میں نہیں۔ حقیقتاً نیکی یہ ہے جو اللہ تعالیٰ، قیامت کے دن، فرشتوں، کتاب اللہ اور نبیوں پر ایمان رکھنے والے۔ جو لوگ مال کے محبوب ہونے کے باوجود رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والوں کو دیں۔ غلاموں کو آزاد کریں نماز کی پابندی اور زکوٰۃ کی ادائیگی کریں، اپنے وعدے پورے کریں۔ تنگدستی اور لڑائی کے وقت صبر کریں۔ یہی لوگ سچے اور یہی پرہیزگار ہیں
(177۔188)۔ باوجود اس بد دیانتی کے جس کا ذکر تم سن چکے ہو اہل کتاب اس امر پر نازاں ہیں کہ ہم ہی انبیا کے کعبہ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے ہیں اس لئے وہ سن رکھیں کہ بغیر اقرار رسالت یہ کوئی نیکی نہیں کہ تم اپنا منہ مشرق مغرب کی طرف پھیرتے جائو ہاں نیکی والے حقیقتاً وہ لوگ ہیں جو سب سے پہلے اللہ کو اپنا خالق مالک رازق مطلق مانیں اور قیامت کے دن کو یقینی جانیں اور اللہ کے فرشتوں کو اور سب کتابوں اور نبیوں کو سچے مانیں جن میں سے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خاص کر واجب الاتباع جانیں۔ اور عملی پہلو ان کا یہ ہو کہ اپنا مال عزیز باوجود اس کی خواہش اور ضرورت کے محتاج قریبیوں اور یتیموں اور مسکینوں اور بے سامان مسافروں اور ہر قسم کے مانگنے والوں کو دیویں اور غلاموں کی رہائی میں خرچ کریں نہ کہ تمہاری طرح کہ سب جہان کو کھا جا ئو اور ہنوز روزہ دار ہی کہلائو اور نیکی والوں کی تعریف میں یہ بھی ہے کہ وہ نماز کی پابندی رکھتے ہوں اور زکوٰۃ بھی دیتے ہوں اور معاملہ کے ایسے صاف ہوں کہ جب کبھی کسی سے وعدہ کرتے ہیں تو پورا کرتے ہیں اور سختیوں اور بیماریوں میں اور جہاد کے وقت صابررہتے ہیں یہی لوگ اپنے دعوٰے میں سچے راست باز ہیں اور یہی لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہیں باقی سب خلط ” شان نزول : (لَیْسَ الْبِرَّ) تحویل قبلہ پر یہودیوں نے اعتراض کئے اور اپنی شیخی بگھاری تو ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ “ ہاں یہ نہیں کہ اگر ان لوگوں پر کوئی نااہل زیادتی کرے یہاں تک کہ ان کو یا ان کے بھائی بندوں کو جان سے مار دے تو وہ اپنے صبر ہی میں خاموش رہیں ایسا صبر تو ان کی جان پر وبال ہوجائے گا صبر یہ نہیں کہ ظالموں کو دلیر کیا جائے بلکہ ایسے نالائقوں سے بدلہ لینا بھی ضروری ہے اس لئے ہم اعلان دیتے ہیں کہ اے ایمان والو ! مقتولوں کا بد لہ لینا تمہیں جائز ہے اس میں کسی خاص شخص یا قوم کی فضیلت بھی نہیں کہ ان میں کا قاتل چھوڑا جائے یا ان کے آزاد کے عوض غلام کو لیا جائے یا ان کی عورت دوسروں کی عورتوں کے ہم پلہ نہ ہوسکے بلکہ آزاد قاتل بدلے آزاد مقتول کے خواہ کوئی ہو مارا جائے گا اور غلام بدلہ غلام کے چاہے کوئی ہو مارا جائے گا اور عورت قاتلہ عوض عورت مقتولہ کے خواہ کسی قوم کی ہو ماری جاوے ہاں اگر باہمی صلح کی ٹھہرے تو پس جس قاتل کو اس کے بھائی مقتول کے وارثوں کی طرف سے کچھ معافی ملے کہ وہ اس کا مارنا چھوڑ کر کسی قدر نقدی پر فیصلہ کریں تو دستور کے موافق اس وارث کا یہ احسان شکریہ سے لینا واجب ہے۔ یہ نہیں کہ اپنی ہی اکڑخانی میں رہو کہ ہم جان تو دے دیں گے پر احسان نہ مانیں ایسا مت کرو اور بخوشی اس وارث کا حق اس کو پہنچاؤ۔ کیا یہ نہیں سمجھتے ہو کہ تمہارا کتنا بڑا جرم تھا جو اس نے بالکل ہی معاف کردیا اور ہم نے بھی اسے جائز رکھا۔ سچ پوچھو تو یہ تمہارے رب کی طرف سے آسانی ہے اور مہربانی ورنہ حق یہی تھا کہ جو کوئی کسی کو قتل کرے وہ ضرور ماراجائے پس بعدا اس فیصلہ کے جو کوئی ان میں سے کسی دوسرے پر زیادتی کرے گا یعنی معاف کرکے بدلہ لینے کی ٹھیرائے۔ یا وعدہ ادا کرنے رقم کا کرے اور ادانہ کرے تو اس کو سخت عذاب بھگتنا ہوگا۔ ” شان نزول : (اَلْحُرُّ بالْحُرِّ) عرب کے بعض قبیلے ایک دوسرے پر فضیلت جانتے تھے۔ یہاں تک کہ اگر شریف قبیلے کا ایک آدمی مارا جاتا تو دوسرے کے دو مار کر برابر سمجھتے۔ اگر شریف قبیلے کی عورت کو کوئی رذیل قبیلے کی عورت مارتی تو اس عورت کے بدلہ میں اس قبیلے کے مرد کو مارتے۔ یہاں تک ایک دوسرے پر فخر اور علو ہوتا تھا کہ شریف قبیلے رذیلوں کی لڑکیاں بلا مہر لے لیتے جب مشرف باسلام ہوئے اور ہنوز ان کے بعض معاملات خون کے تصفیہ طلب تھے شریف قبیلے نے حسب دستور قدیم خواہش کی اور اللہ کو یہ خواہش ان کی ناپسند تھی تو ان کے تصفیہ کرنے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم بتفصیل “ ہاں اس میں شک نہیں کہ خونی کے قتل کرنے میں تمہاری گویا زندگی ہے اے عقل والو ! حتی الامکان یہی کیا کرو۔ تاکہ تم اس خوف سے کہ اگر قتل کردیں گے تو اس کے بدلہ میں مارے جائیں گے اس فعل شنیع سے بچتے رہو۔ چونکہ تنگدستی بھی ایک قسم کی گویا موت ہے خاص کر ایسے شخص کے حق میں جس کے ماں باپ یا اولاد کا ترکہ دوسرے لوگ لے جائیں اور وہ محروم ہی رہیں اس لئے جیسا کہ تم کو قتل قتال سے روکا اسی طرح تم پر فرض ١ کیا گیا ! ہے کہ اگر کوئی تم میں سے مال اسباب پیچھے چھوڑتا ہو تو مرتے وقت اپنے ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے لئے دستور شرع کے موافق وصیت کر جائے کہ میرے بعد میرے ماں باپ اور میری لڑکیوں اور بہنوں کو اتنا دینا اور فلانے کو اتنا فلانے کو اتنا کسی پر طرح کا ظلم زیادتی نہ کرنا بلکہ موافق شریعت کے تقسیم کرنا گویا یہ وصیت ہر ایک کے حق میں مفید اور مناسب ہے مگر خاص کر پر ہیز گاروں پر تو ضروری ہے ” شان نزول : (کَتِبَ عَلَیْکُمْ) عرب میں دستور تھا کہ سوائے لڑکے کے کوئی وارث نہ ہوتا تھا ان کی یہ عادت قبیحہ مٹانے کو یہ آیت نازل ہوئی (تم پر فرض کیا گیا ہے) اس آیت کی تفسیر میں بھی مفسروں کا کسی قدر اختلاف ہوا ہے۔ کوئی کہتا ہے اس آیت کا حکم پہلے تھا کہ ہر ایک شخص پر مرتے ہوئے اپنے مال کے متعلق وصیت کرنا فرض تھا کہ میری جائداد کو اس طرح تقسیم کرنا اتنا فلاں کو اور اتنا فلاں کو۔ لیکن جب آیت میراث نازل ہوئی تو اس میں اللہ تعالیٰ نے خود ہی حصے فرما دئے کہ بیٹے کا بیٹی سے دوگنا ہووے۔ بیوی کا اتنا۔ خاوند کا اتنا۔ اس لئے یہ آیت منسوخ ہوگئی بعض علماء کہتے ہیں کہ منسوخ نہیں بلکہ یہ حکم استحبابی ہے اور ان لوگوں کے حق میں ہے جن کا آیت میراث میں حصہ مذکور نہیں۔ جیسے باپ بیٹے کے ہوتے ہوئے چچا یا اس کی اولاد۔ پس اگر ایسے لوگوں کے حق میں کچھ وصیت کرے تو جائز ہے اور وصیت کی حد حدیث صحیح میں ثلث مال تک آئی ہے۔ خاکسار راقم کے نزدیک بھی قرآن کی دونوں آیتوں سے کوئی آیت منسوخ نہیں بلکہ آیت میراث اس آیت کی شرح ہے کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے وصیت کرنے کا حکم فرمایا تھا مگر چونکہ اس وصیت میں کمی زیادتی کرنا انسان طبائع سے کچھ بعید نہ تھا اس لئے خدائے عالم الغیب نے اس وصیت کی آپ ہی شرح کردی بلکہ اس فعل کو جو اس کی شرح میں مستعمل تھا خاص اپنی طرف نسبت کیا اور فرمایا یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ للذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ” یوصی“ کے لفظ کو اس جگہ لانا اور یحکم جو عموماً ایسے مواقع پر بولا جایا کرتا ہے نہ فرمانا اسی طرف اشارہ ہے کہ یہ افعال (ایصائ) اس فعل (وصیت مکتوبہ) کی شرح ہے جو پہلے مجمل تھی پس اب آیت موصوفہ کے معنے یہ ہوں گے کہ اپنے ان وارثوں کے حق میں جن کے حصے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرما دئیے ہیں یہ وصیت کرنا تم پر فرض ہے کہ اپنے اپنے حصے موافق شریعت کے لیں۔ کوئی کسی پر ظلم زیادتی نہ کرے مگر ان ورثاء کے علاوہ اور لوگ بھی میت سے دور نزدیک کا تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں ان کی نسبت وصیت کی کوئی شرح نہیں بلکہ وہ میت کے اختیار میں رکھا اور مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْ بِھَآ اَوْدَیْنٍ میں اسی اختیار کی طرف اشارہ ہے ہاں اس کو بھی ایسا کھلا نہیں چھوڑا کہ سارے مال کی وصیت کسی کے حق میں کر جائے بلکہ اس کو بھی غَیْرَ مُضَآرٍّ سے مقید فرمایا ہے جس کی شرح حدیث میں ثلث تک آئی ہے۔ کہ تہائی مال کی وصیت کو آنحضرت (ﷺ) نے جائز رکھا اور غَیْرَ مُضَآرٍّ کی شرح فرما دی اور وارث کے حق میں لاوَصِیَّتَ لِوَارِثٍ کہہ کر یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ کو کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْوَصِیَّۃُ کی شرح ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ خلاصہ دونوں آیتوں کا یہ ہوا کہ جن کے حق میں اللہ عالم الغیب نے حصے مقرر کردیئے ہیں ان کی نسبت تو مقرر حصص کے لیے وصیت کرنے کی حاجت نہیں بلکہ ان کی وہی وصیت ہے جس کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے اور جن لوگوں کے حصص مقرر نہیں کئے ان کے حق میں میت کو ثلث مال تک وصیت کرنے کی اجازت حاصل ہے پس سرسید احمد خاں کا فرماناکہ :۔ سر سید کی دسویں غلطی : ” قرآن مجید کی دونو آیتوں کے ملانے سے نتیجہ یہ نکلا کہ مرنے والے نے اگر کوئی وصیت کی ہے تو اس کا مال اس کی وصیت کے مطابق تقسیم کیا جائے اور اگر اس نے کچھ وصیت نہیں کی یا جس قدر کہ وصیت کی ہے اس سے زیادہ مال چھوڑا ہے تو اس کے مالکی یا اس قدر کی جو وصیت سے زیادہ ہے آیت توریث کے مطابق تقسیم ہوجائے گی پس دونوں آیتوں کا حکم بحال اور قائم ہے“ (صفحہ ٢١٥) صحیح نہیں۔ کیونکہ بحکم القراٰن یفسر بعضہ بعضا۔ قرآن جو اپنی تفسیر آپ کرتا ہے۔ وہ ہر طرح مقدم ہے۔ سرسید کی تفسیر اس اصول کے خلاف ہے امید ہے کہ سید صاحب ہمارے معروضہ بالا بیان پر غور فرمائیں گے تو اپنی اس رائے کو واپس لیں گے (تفسیر ثنائی کا بہت سا حصہ سرسید مرحوم کی زندگی میں چھپ گیا تھا اور ان کو پہنچ بھی گیا تھا۔) اس لیے کہ سید صاحب کو اس کہنے کی وجہ یہی پیش آئی ہے کہ کوئی آیت کسی آیت یا حدیث سے منسوخ نہ ہو سو ہم نے نہ کسی آیت کو آیت سے منسوخ ٹھیرایا ہے نہ حدیث سے بلکہ ایک آیت اور حدیث کو دوسری آیت کی تفسیر اور شرح بنایا ہے جو بالکل القراٰن یفسّر بعضہ بعضا کے مطابق ہے۔ فافھم “ ہاں جو لوگ اس وصیت کو بعد سننے کے بھی بدلیں گے تو اس ظلم کا گناہ انہیں بدلنے والوں پر ہوگا۔ نہ کہ اس میت پر بے شک اللہ اس میت کی باتیں سنتا ہے اور ان بدلنے والوں کی حرکات ناشائستہ کو جانتا ہے پھر کیسا ہوسکتا ہے کہ اس میت کو باوجود وصیت کے کرجانے کے بھی موخذہ ہو۔ ہاں جو کوئی اس میت وصیت کنندہ سے کسی وارث کی حق تلفی کے سبب سے کجروی معلوم کرے یا کسی کو اس کے حق سے زائد دلانے یا کسی ناجائز جگہ صرف کرنے کی وجہ سے گناہ معلوم کرکے اس میں اصلاح مناسب کردے اگرچہ موصی کی وصیت میں تغیر ہی آوے۔ تو بھی اس پر گناہ نہیں بلکہ اس کی کوشش کا اس کو عوض ملے گا بے شک اللہ بڑی بخشش والا نہایت مہربان ہے مخلصوں کی تھوڑی سے محنت بھی ضائع نہیں کرتا یہ بھی اس کی مہربانی ہے کہ محض اپنے فضل سے تمہیں ایسے کام بتلاتا ہے جو تمہیں ہر طرح سے مفید ہوں یہی وجہ ہے کہ اے مسلمانو ! تم پر روزہ فرض ہوا ہے جو تمہارے حق میں سراسر مفید ہے اس میں تمہاری خصوصیت نہیں بلکہ تم پر جو ہوا تو ویسا ہی ہوا جیساتم سے پہلے لوگوں پر ہوا تھا اس میں ہماری کوئی ذاتی غرض نہیں بلکہ یہی ہے تاکہ تم شہوات نفسانہل اور عذاب الٰہی سے بچ جاؤ گھبراؤ نہیں چند ہی ایام ہیں پھر ان میں بھی ہر طرح سے آسانی کی گئی ہے کہ جو کوئی تم میں سے رمضان کے دنوں میں بیمار ہو جس سے وہ روزہ نہ رکھ سکے یا مسافر تو وہ بجائے ان دنوں کے اور دنوں سے شمار پورا کرے۔ ”(فرض ہوا ہے) اس آیت کے متعلق بھی کسی قدر اختلاف ہوا ہے بعض مفسر کہتے ہیں کہ یہ روزے اور ہیں اور رمضان کے روزے اور لیکن جب رمضان فرض ہوا تو یہ منسوخ ہوگئے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ روزے وہی ہیں جن کی تفسیر خود کلام اللہ نے کردی ہے کہ وہ رمضان ہے خاکسار کے نزدیک بھی یہ رائے ارحج ہے اس لئے کہ کوئی وجہ نہیں کہ ہم آیات قرآنی کو خواہ مخواہ توجیہ ہوتے ہوئے بی منسوخ قرار دیں۔ خیر یہ اختلاف تو تھا ہی اس سے آگے کی آیت یُطِیْقُوْنَہٗ میں اس سے بھی کسی قدر زیادہ بحث ہوئی ہے بعض مفسرین اس کے معنے یہ کرتے ہیں کہ جو لوگ روزہ کی طاقت رکھتے ہیں وہ اگر نہ رکھیں تو اس کے عوض میں ایک مسکین کو کھاناکھلا دیں ساتھ ہی اس کے یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ حکم دوسری آیت فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھَرَ فَلْیَصُمْہُ سے منسوخ ہے اس لئے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے روزہ کا حکم قطعی طور پر دے کر وہ (بیمار اور مسافر) ہی کو مستثنیٰ کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ باقی لوگ روزہ ضرور رکھیں بعض صاحب نسخ سے بچنے کو اس کے معنے میں لا کو مقدر سمجھتے ہیں یعنی جو لوگ روزہ کی طاقت نہیں رکھتے اور بعض کی رائے ہے کہ باب افعال کا ہمزہ سلب کے لئے بھی آتا ہے یعنی حذف لا کی حاجت نہیں بلکہ یطیقونہ ہی کے معنے عدم طاقت کے ہیں غرض ان کی رائے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں بعض کہیں یطیقون کے معنے دشواری سے روزہ رکھنے کے ہیں۔ پس یہ آیت منسوخ نہ ہوئی صحیح بخاری کتاب التفسیر میں اس آیت کی تفسیر کے ماتحت سلمہ سے روایت ہے کہ شروع اسلام میں جو چاہتا روزہ رکھتا تھا جو چاہتا افطار کر کے فدیہ طعام دیتا تھا یہاں تک کہ اس سے بعد کی آیت نازل ہوئی۔ سلمہ (رض) کا مطلب یہ ہے کہ یُطِیْقُوْنَ کے معنے طاقت رکھنے کے ہیں مگر دوسری آیت مَنْ شَھِدَ مِنْکُمْ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ نے اس اختیار کو منسوخ کردیا۔ اسی صحیح بخاری میں ابن عباس سے روایت ہے کہ یطیقون کے معنی ہیں یطوقون یعنی بدقت و دشواری روزہ رکھنیوالے مراد ہیں جیسے بہت بوڑھے لوگ اس قول کے مطابق آیت منسوخ نہیں بلکہ کمزور بوڑھوں کے حق میں بحال ہے۔ میں نے جو ترجمہ کیا ہے۔ وہ ابن عباس کی روایت کی بنا پر کیا ہے لیکن سلمہ بن اکوع نے جو طاقت رکھنے والے بتائے ہیں ان معیک کی تردید کی میں کوئی دلیل نہیں پاتا۔ نیز اس تفسیر سے آیت موصوفہ کو منسوخ کہنے پر بھی کوئی قطعی دلیل از قرآن و حدیث میں مجھے نہیں ملی۔ رہی یہ بحث کہ یہ کون لوگ ہیں جن کو دقت اور دشواری ہوتی ہے۔ بہت سے مزدور تمام روز گرمی میں کام کرتے ہوئے بھی روزہ رکھتے ہیں اور بہت سے بابو لوگوں کو سرد مکانوں میں بیٹھے ہوئے بھی تکلیف محسوس ہوتی ہے سواس کی تعیین یوں ہے کہ جو لوگ ایسے ہوں کہ ان کے ہم عمر دوسرے لوگ روزہ رکھ سکتے ہیں تو وہ معذور نہ سمجھے جائیں گے اور جو لوگ ایسے ہوں کہ ان کی عمر ہی ایسے مرتبہ کو پہنچ چیی ہو جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے اور نہ آئندہ کو انہیں طاقتور ہونے کی امید ہے جیسے شیخ فانی تو ایسے لوگ بیشک معذور ہیں اور ہونے بھی چاہئیں۔ سر سید نے اس موقع پر ناتوانوں کی تفصیل نہیں کی بلکہ مطلقاً اختیار دیا ہے کہ :۔ ” جن لوگوں کو روزہ رکھنے میں زیادہ سختی اور تکلیف ہوتی ہے اور مشکل روزہ رکھ سکتے ہیں ان کو اجازت ہے کہ روزوں کے بدلہ میں فدیہ دیں مگر ان کے حق میں فدیہ دینے سے روزہ رکھنا بہتر ہے“ (ج ١‘ ص ٢٢٩) (اس مضمون کی ایک حدیث بھی آئی ہے کہ بڈھی ارزل العمر کی روزہ کے بجائے ایک مسکین کو کھانا کھلانا جائز ہے حاملہ عورت اور دودھ پلانے والی اگر روزہ رکھنے سے اس کے حمل کو یا بچہ کو کچھ نقصان پہنچتا ہے تو وہ بھی بیمار کی طرح معذور ہے۔ بعد فراغت رکھ سکتی ہے۔) اسؔ لئے گذارش ہے کہ یا تو تفصیل کیجئے اور اگر تفصیل منظور نظر نہیں بلکہ ہر ایک تکلیف اور سخی اٹھانے والے کو خواہ اس کی ناطاقتی صنفی ہو یا شخصی اجازت ہے تو فرما دیں مَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ والی آیت کا جو باستثناء دو قسم (مریض اور مسافر) مطلقاً فائدہ وجوب کا دیتی ہے۔ کیا جواب؟ رہی یہ بحث کہ سارے مہینے کے روزے قرآن سے ثابت ہیں یا نہیں۔ اس لئے کہ فَلْیَصُمْہُ کی ضمیر منصوب مفعول فیہ کے لئے استیعاب ضروری نہیں بلکہ کسی قدر اشتعال کافی ہے جیسا کہ دخلت الدار اور دخلت المسجد شبہ مولوی حشمت علی اہل قرآن کی مفید ایجاد ہے سواس کا جواب یہ ہے کہ ضمیر منصوب اس کی جگہ مفعول فیہ نہیں بلکہ مفعول بہ ہے تلویح میں لکھا ہے جو شخص کہے علی ان اصوم فی الشھر اسے تو مہینہ میں کم ازکم ایک روزہ واجب ہے اور جو شخص ان صوم الشھر کہے اسے سارا مہینہ رکھنے پڑتے ہیں اس لئے کہ الشھر مفعول فیہ مشابہ مفعول بہ کے ہوگیا۔ یہ محاورہ کسی قدر ہمارے ہاں بھی ملتا ہے اگر کوئی کہے کہ میں نے اس ہفتہ رخصت لی ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ چند ایام نہ تمام ہفتہ۔ اور اگر کہے کہ میں نے یہ ہفتہ رخصت لی ہے تو اس کے معنے سارے ہفتہ کے دن ہوتے ہیں پس اسی طرح فلیصم فیہ اور فلیصمہ میں فرق ہے۔ فتدبر ١٢ منہ (فرضیت کے بارے میں) اس آیت کی تفسیر میں بھی کسی قدر اختلاف ہوا ہے اکثر صاحب اس کے ترجمہ میں حذف مضاف نہیں مانتے بلکہ صاف ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا اور اس کی توجیہ یوں کرتے ہیں رمضان میں لوح محفوظ سے پہلے آسمان پر سارا قرآن آگیا تھا پھر حسب موقع ایک ایک سورت نازل ہوتی رہی بعض صاحب اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ :۔ (القول الثانی) فی تفسیر قولہ انزل فیہ القراٰن قال سفیان انزل فیہ القراٰن معناہ انزل فی فضلہ القراٰن وھٰذا اختیار الحسین ابن الفضل قال و مثلہ ان یقال انزل فی الصّدیق کذا اٰیۃ یریدون فی فضلہ قال ابن الانباری انزل فے ایجاب صومہ علے الخلق کما یقال انزل فی الزکوٰۃ کذا و کذا یرید فی ایجابھا و انزل فے الخمر کذا یرید فے حرمتھا۔ رمضان کی فضیلت میں قرآن نازل ہوا بعض کہیں رمضان کی فرضیت میں قرآن نازل ہوا جیسا کہ کہا کرتے ہیں کہ زکوٰۃ میں قرآن کی فلاں آیت اتری اور شراب میں فلاں آیت نازل ہوئی جس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ زکوٰۃ کی فرضیت میں اور شراب کی حرمت میں نازل ہوئی۔ میرےؔ نزدیک بھی یہی معنے ارحج ہیں چنانچہ میں نے انہیں کو اختیار کیا ہے اس لئے کہ اس سے آگے کی آیت میں ارشاد ہے فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الَّشْھَر فَلْیَصُمْہُ جس سے متبادر معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم پہلے بیان پر تفریع مذکور ہے چنانچہ لفظ ف جس کے معنے پس کے ہیں یہی جتلا رہا ہے سو یہ تفریع جبھی صحیح اور درست ہوگی کہ اس سے پہلی آیت میں کچھ ایسا مذکور ہو جس کے ساتھ وجوب صیام تفریع پذیر ہوسکے وہ یہی ہے کہ انزل فی ایجاب صومہ یعنی اس کے روزوں کے فرض ہونے میں قرآن نازل ہوا ہے پس جو کوئی حاضر ہو وہ روزہ رکھے پہلے دونوں معنے کہ اس میں قرآن نازل ہوا یا اس کی فضیلت میں نازل ہوا۔ اس تقریر سے ایسے منطبق نہیں جیسے کہ یہ ہیں فافھم رہی سورۃ قدر کی آیت اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ اس میں بھی اگر حذف مضاف مانا جائے جیسا کہ بعض نے مانا ہے تو کوئی حرج نہیں۔ دونوں آیتوں میں تطبیق ہوجاتی ہے۔ اور انہیں تو جو وجہ میں نے بیان کی ہے وہاں چونکہ وہ نہیں اس لئے وہاں اس کے متبادر معنی بھی لئے جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ فتفکر “ اور جو لوگ بوجہ غائیت ضعف جسمانی اور پیرا نہ سالی بد قّت ودشواری اس روزہ کی طاقت رکھتے ہیں وہ اگر روزہ نہ رکھیں تو ان پر ایک مسکین کا کھانا دینا واجب ہے پھر جو کوئی شوق سے نیکی زیادہ کرے کہ ایک کے بدلہ میں دو کو کھلاوے پس وہ دو کا کھلانا اس کے لئے بہتر ہے اور سب سے بہتر تو یہی ہے کہ روزہ ہی رکھو گو تکلیف شدید ہی ہو اس لئے کہ روزہ مثل ایک مسہل کے ہے جو سال بعد ہر ایک کو کرلینا چاہئے گو وہ کسی مرتبہ کاہو۔ اگر دینی رموز جانتے ہو تو ایسا ہی کرو۔ تم جانتے ہو کہ یہ ایام مذکورہ کیا ہیں اور کب ہیں سنو ! ماہ رمضان ہی وہ مہنہ ہے جس کے روزہ رکھنے کی فرضیت کے بارے میں قرآن نازل ہوا ہے جو سب لوگوں کے لئے ہدایت اور ہدایت کی بین نشانیاں اور حق باطل کا فیصل ہے پس اب تو ضرور ہے کہ جو کوئی تم میں سے اس رمضان کے مہینے کو پائے وہ اس کے سارا مہینہ روزے رکھے اور جو کوئی بیمار یا مسافر ہو وہ اور دنوں سے جب وہ تندرست ہوجائے یا سفر سے واپس آجائے تو اسی قدر شمار پورا کردے اللہ تعالیٰ کو تمہاری تکلیف باجج منظور نہیں بلکہ اخلاص منظور ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ اپنے احکام میں تمہارے حق میں ہمیشہ آسانی چاہتا ہے اور کبھی تنگی نہیں چاہتا اور بیمار اور مسافر کو تمام مافات کا حکم بھی اسی لئے دیا تاکہ حتی المقدور تم اس مبارک مہینے کی گنتی پوری کرسکو اور بعد ختم ہونے رمضان کے بتلائے ہوئے طریق سے عید کے روز اللہ وحدہٗ لا شریک کی بڑائی اور تکبیریں بیان کرو تاکہ تم گناہوں کی معافی پر شکریہ کرو اس قسم کی مہربانی اور بخشش دیکھ کر جب میرے چاہنے والے بندے تجھ سے میرا حال دریافت کریں کہ اللہ ہم سے دورہے یا نزدیک؟ ہم کسی طرح سے اس کو مل سکتے ہیں یا نہیں؟ تو تو میری طرف سے ان کو کہہ دے کہ میں تم سے ہر حال میں قریب ہوں یہ کہ جس طرح تم ایک دوسرے کی باتیں سنو تو دریافت کرسکو بلکہ ہوں تو جہاں ہوں البتہ پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں۔ نہ کسی خاص حالت اور وقت میں بلکہ جب کبھی اور جس وقت مجھے پکاریں اور مجھ سے مانگے فوراً حسب الحکمت اس کو قبول کرتا ہوں پس تم کو اور کیا چاہئے اب اگر لوگ مجھ سے ملنا چاہیں اور اپنی دعاؤں کی قبولیت کے خواہشمند ہوں تو میری بات مانیں اور میری نسبت ایمان درست کریں اور دل میں مجھ ہی کو دینے والا جانیں تاکہ وہ اپنی مراد کی راہ پاویں یہ نہ سمجھو کہ میرے قریب ہونے سے تمہاری سب لذتین چھوٹ جائیں گی نہیں اسی طرح لذت حاصل کروگے جب ہی تو تمہارے لئے رمضان کی راتوں میں بھی عورتوں سے جماع کرنا حلال کیا گیا کہ تم ان کے نہ ملنے سے تکلیف نہ اٹھاؤ اس لئے کہ وہ تمہارے لباس کی طرح ہیں اور تم ان کی پوشاک کی مانند ہو نہ وہ تم سے جدا ہوسکتی ہیں نہ تم ان سے علیحدہ۔ یہی وجہ ہے کہ اس سے پہلے تم سے غلطیاں بھی ہوتی رہیں سو اللہ تعالیٰ نے جان لیا کہ تم اپنے نفسوں کی خیانت کرتے ہو کہ رمضان کی راتوں میں عورتوں سے جماع کرنے سے رکتے ہو جس سے تمہیں سخت تکلیف ہوتی ہے پس تم پر رحم کیا کہ تمہاری حاجت کے موافق تم کو اجازت دی اور پہلے قصور کو تم سے معاف کردیا پس اب سے رمضان کی راتوں کو ان عورتوں سے ملا کرو اور جو اولاد اللہ تعالیٰ نے تمہارے حق میں لکھی ہے اس کی طلب کرو۔ اور اسی نیت سے جماع کرو کہ اللہ تعالیٰ کوئی نیک اولاد عنایت کرے جو بعد مرنے کے نیک دعا سے یاد کرتا رہے ” شان نزول :۔ اوّل اوّل صحابہ میں دستور تھا کہ رمضان کی راتوں میں عورتوں سے جماع نہ کرتے بعض لوگوں سے طبعی جوش اس کے برخلاف بھی ظاہر ہوا جس سے ان کو سخت رنج ہوا ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی “ اور رمضان کی راتوں کو خوب جی بھر کرکھاتے پیتے رہو جب تک کہ صبح کی سفید دھاری رات کی کالی دھاری سے علیحدہ ہو یعنی صبح صادق ہوجائے تو بس کرو ” شان نزول : اوّل اوّل صحابہ میں دستور تھا کہ افطار کے وقت ہی جو چاہیے سو کھا لیتے پھر نہیں۔ چنانچہ ایک صحابی اپنے کھیت سے تھکا ماندہ ہو کر گھر میں آیا اور کھانا تیار نہ تھا اتنے میں تو سو گیا اور بوجہ سونے کے کھانا کھانے سے محروم رہا۔ اور دوسرے روز بھی اسے روزہ رکھنا پڑا جس سے اس کو بہت بڑی تکلیف ہوئی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی “ پھر شام تک کھانے پینے۔ جماع۔ غیبت۔ شکائیت۔ جھوٹ۔ وغیرہ سے بندر رہ کر روزہ پورہ کرو اور جب تم مسجدوں اخیردھاکہ رمضان میں مثلاً اعتکاف کرتے ہو تو دن رات میں کسی وقت بھی عورتوں سے مت چھوؤ یہ چند احکام مذکورہ گویا حدود خدا وندی ہیں پس خبردارہو ان سے گذرنا تو درکنار ان کے نزدیک بھی نا جائیو اسی طرح اللہ لوگوں کی ہدایت کے لئے اپنے احکام بیان کرتا ہے تاکہ وہ ان پر تعمیل کرکے جہنم سے بچ جائیں پس تم ان احکام پر کار بندر ہو اور معاملہ مابین مخلوق بھی درست رکھو کہ آپس میں ایک دوسرے کے مال ناجائز طریق اور فریب سے مت کھانا اور اس مال کو جھوٹی نابشوں کے ذریعہ سے حکام تک نہ پہنچاناکہ ناحق جھوٹی ڈگریاں کرواکر لوگوں کے مال کا کچھ حصہ جان بوجھ کر کھاجاؤ۔ ” شان نزول :۔ ! دو شخصوں کا آپس میں کچھ تنازع تھا۔ مدعی نے حضور اقدس میں دعویٰ دائر کیا۔ آپ نے اس سے گواہ طلب کئے۔ وہ بولا میرے پاس گواہ نہیں۔ حضور نے حسب دستور مدعا علیہ کو قسم کا حکم دیا۔ وہ قسم کھانے پر تیار ہوگیا۔ آپ نے فرمایا اگر جھوٹی قسم کھا کر اس کا مال کھائے گا تو قیامت کے روز اللہ کا غضب اپنے پر لے گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی “ مگر تعجب ہے کہ یہ لوگ ان حکموں کی تعمیل کرتے نہیں۔ ہاں بے کار سوال کرنے کے بڑے مشتاق ہیں۔