سورة الحجر - آیت 19

وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُونٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور ہم نے زمین کو پھیلا یا، اس میں پہاڑ رکھے اور ہم نے اس میں ہر چیز مناسب مقدار میں اگائی۔“ (١٩) ”

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(18۔50) اور ہم نے زمین کو پانی پر بچھایا ہے اور اس پر بڑے بڑے اٹل پہاڑ گاڑ دئیے ہیں اور اس زمین میں ہر قسم کی موزوں چیزیں کھانے پینے کی پیدا کی ہیں اور دیکھو ہم نے تمہیں پیدا کر کے یونہی نہیں چھوڑ دیا بلکہ تمہاری پرورش بھی کرتے ہیں کہ اسی زمین میں تمہارے اور تمہارے ماتحتوں کے جن کے تم حاکم تو ہو مگر رازق نہیں ہو گذارے کے اسباب پیدا کئے ہیں اور یہ نہ سمجھو کہ ہماری قدرت کی انتہا یہیں تک ہی نہیں بلکہ دنیا میں جو جو چیزیں موجود ہیں ہمارے پاس ان کے کئی کئی خزانے ہیں اور ہم ہمیشہ اندازہ سے پیدا کیا کرتے ہیں اور دیکھو کہ تمہاری زندگی کے سامان کیسے بناتے ہیں کہ ہم ہی پانی سے بھرے ہوئے بوجھل بوجھل بادل بھیجتے ہیں پھر آسمان کی طرف سے بادلوں سے پانی اتار کر تم کو پلاتے ہیں اور تم تو ایسے عاجز ہو کہ اس کو اپنے پاس جمع نہیں رکھ سکتے برسا تو اپنی حاجت روائی کی اور باقی دھوپ سے خشک ہوتا گیا اور سنو ! ہم ہی تم کو زندہ رکھتے ہیں اور ہم ہی تم کو مارتے ہیں اور ہم ہی سب چیزوں کے حقیقی مالک ہیں جس قدر کسی کو کسی چیز کے استعمال کی اجازت دیتے ہیں وہ برت سکتا ہے اس سے بعد فوراً چھن جاتی ہے جن لوگوں نے یہ گر سمجھا ہے ان کا یہ قول ہے وہ مالک ہے سب آگے اس کے لاچار نہیں ہے کوئی اس کے گھر کا مختار اور سنو ! اس کمال قدرت کے علاوہ ہمارا علم بھی ایسا وسیع ہے کہ ہم تم میں سے پہلے گذرے ہوئوں کو اور پیچھے رہے ہوئوں سب کو جانتے ہیں اور اے محمد تیرا پروردگار ان سب کو جو گذر چکے ہیں یا موجود ہیں ایک دن جمع کرے گا بیشک وہ بڑی حکمت والا بڑے علم والا ہے اور سنو ! ہم (اللہ) ہی نے انسان یعنی آدم کو سڑے کیچڑ کی کھنکھناٹی مٹی سے پیدا کیا اور اس سے پہلے جنوں کے باپ کو تیز آگ سے بنایا تھا اور تم (بنی آدم) کو اس وقت کو یاد کر کے فخر کرنا چاہئے جب تمہارے پروردگار نے سب فرشتوں سے کہا کہ میں ایک آدمی سڑی مٹی سے پیدا کرنے والا ہوں پھر جب اس کو درست بنا چکوں اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دوں تو تم نے تعظیماً اسے جھک کر سلام کرنا پس اس حکم کی تعمیل میں سب فرشتوں نے اسے جھک کر سلام کیا لیکن ابلیس نے تعظیم کرنے والوں کے ساتھ ہونے سے انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے کہا تجھے کیا مانع پیش آیا کہ آدم کی تعظیم کرنے والوں کی جماعت میں شامل نہیں ہوا شیطان بولا کہ میں تو ایسے شخص کی تعظیم کبھی نہ کروں جس کو تو نے سڑی مٹی سے پیدا کیا بھلا اعلیٰ ادنیٰ کو جھک کر نہایت انکساری سے کیونکر سلام کرے اللہ نے کہا تو اس جماعت سے نکل جا کیونکہ تو مردود ہے اور قیامت تک تجھ پر لعنت رہے گی اس نے عرض کیا کہ میرے پروردگار جو ہوا سو ہوا بندوں کے حساب کے لئے اٹھنے کے دن تک مجھے مہلت عنایت ہو۔ اللہ نے کہا اچھا تجھے وقت معین یعنی قیامت تک مہلت ہے شیطان نے کہا میرے پروردگار ! بوجہ اس کے کہ تو نے مجھے اس آدم کے سبب سے گمراہی کا مجرم ٹھیرایا ہے میں بھی اس کی اولاد سے پورے پورے بدلے لوں گا کہ برے کام ان کی نظروں میں مزین اور خوبصورت کروں گا اور جس طرح سے بن پڑے گی ان سب کو گمراہ کرنے کی کوشش کروں گا مگر جو تیرے برگزیدہ بندے ہوں گے ان پر میرا کچھ زور نہ چلے گا اللہ نے کہا یہ بات مجھے بھی ملحوظ ہے اور میں ہمیشہ اس بات کو ملحوظ رکھوں گا کہ میرے نیک بندوں پر تیرا زور اور قابو نہ ہوگا مگر انہیں پر ہوگا جو تیرے تابع ہوں گے یا ہونے کو پسند کریں گے اور تجھے اور تیری جماعت کو اطلاع رہے کہ آخرکار ان سب کا ٹھکانہ جہنم ہوگا اس جہنم کے سات دروازے ہوں گے ان میں سے ہر ایک فرقے کے لئے ایک دروازہ مقرر ہوگا مشرکین کے لئے الگ اور متبدعین کے لئے الگ اسی طرح بے نمازوں کے لئے الگ اور حرام خوروں کے لئے الگ مگر متقی لوگ یعنی پرہیزگار اللہ سے خوف رکھنے والے باغوں اور چشموں میں ہوں گے ان سے باعزاز و اکرام کہا جائے گا کہ سلامتی سے باامن ان باغوں میں داخل ہو چلو اور ان کو آئندہ کی باہمی رنجش کا بھی خوف نہ ہوگا کیونکہ ہم نے ان کے سینوں سے رنجش اور کدورت کی جڑ نکال دی ہوگی بھائی بھائی ہو کر ایک دوسرے کے آمنے سامنے تختوں پر بیٹھا کریں گے اس جنت میں ان کو کسی طرح کوئی تکلیف نہ ہوگی اور نہ ہی وہ ان باغوں سے نکالے جائیں گے یہ سب کچھ محض اللہ کے فضل سے ہوگا پس اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو میرے بندوں کو اطلاع دے کہ میں بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہوں اور یہ بھی بتلا دے کہ میری مہربانی سے بہرہ مند ہونا چاہو تو میرے خوف کو دل میں جگہ دو کیونکہ میرا عذاب بھی بڑا ہی دردناک ہے