المر ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ ۗ وَالَّذِي أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ الْحَقُّ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ
” ا آآرٰ۔ کتاب کی آیات ہیں اور جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے وہ حق ہے۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔“ (١)
(1۔18) میں ہوں اللہ سب کچھ جانتا اور دیکھتا یہ سورت آسمانی کتاب کے احکام ہیں اور یاد رکھ کہ جو کچھ تیری طرف تیرے پروردگار کے ہاں سے اترا ہے یعنی قرآن وہ بالکل سچ اور حق ہے لیکن بہت سے لوگ اس پر ایمان نہیں لاتے یعنی اس کتاب کی تعلیم کے مطابق اللہ واحد سے تعلق نہیں کرتے بلکہ عاجز بندوں سے وہ امور چاہتے ہیں جو مالک مختار کے قبضے میں ہیں۔ اس لئے انہیں متنبہ کرنے کو کہہ کہ اللہ یعنی حقیقی معبود تو وہ مالک ہے جس نے آسمانوں کو جو اپنی وسعت کے لحاظ سے جواب نہیں رکھتے بالکل بے ستون بلند کر رکھا ہے جو تم دیکھ رہے ہو اور آج تک کوئی ستون تمہاری نظر سے نہیں گذرا پھر بعد پیدا کرنے آسمان اور زمین کے تخت حکومت پر بیٹھا یعنی سب اشیاء پر مناسب حکمرانی شروع کی اور سورج اور چاند کو اسی نے مخلوق کے کام میں لگا رکھا ہے ہر ایک سورج۔ چاند سیارہ ایک مقررہ وقت تک چل رہے ہیں ممکن نہیں کہ جو وقت ان کے لئے بلحاظ موسم مقرر ہو اس سے آگے پیچھے ہوسکیں نظام عالم میں تمام احکام وہی جاری کرتا ہے اور اپنی قوت کے نشان مفصل بتلاتا ہے تاکہ تم بنی آدم اپنے پروردگار سے ملنے کا یقین کرو اور سنو ! وہی اللہ قابل عبادت و پرستش ہے جس نے زمین کو اتنی وسعت پر پھلاآیا ہے اور اس پر پہاڑ اور دریا پیدا کئے اور زمین پر ہر قسم کے پھل دو دو قسم کے بنائے ایک تو اعلیٰ درجہ کے جن کو امیر لوگ کھائیں اور گراں ملیں اور ایک ادنیٰ درجہ کے جو عام طور پر سب کو مل سکیں وہی رات کے اندھیرے کو دن کی روشنی پر ڈھانپ دیتا ہے یعنی رات اور دن بھی اسی کے قبضے میں ہیں بے شک فکر کرنے والوں کے لئے اس بیان میں بہت سے دلائل مل سکتے ہیں اور سنو اس کی قدرت کے نشان دیکھنے کو یہی بیان بس نہیں نظام ارضی پر غور کرو کہ زمین میں مختلف ٹکڑے قریب قریب ہیں کسی میں ایک دانا بونے سے سو بلکہ کئی سو دانے بن جاتے ہیں اور کسی میں وہ بھی ضائع ہوجاتا ہے اور انگوروں کے باغ اور کھیتی اور کھجوروں کے درخت بعض ایک تنہ کے بعض الگ الگ یعنی بعض کھجوریں ایک ہی تنہ سے دو شاخہ پیدا ہوتی ہیں اور بعض ایک ہی شاخ والی حالانکہ ایک ہی پانی سے اس کو سیراب کیا جاتا ہے اور وہ بعد پکنے کے ذائقوں اور حلاوتوں میں مختلف ہوتے ہیں کیونکہ ہم (اللہ) ایک کو دوسرے پر کھانے اور مزے میں برتری دیتے ہیں اگر مادہ ہی سب کچھ ہوتا جیسا کہ مادیین کا خیال ہے تو پھر اس کا اثر بھی یکساں کیوں نہ ہوتا بے شک اس بیان میں عقل مند قوم کے لئے بہت سے نشان ہیں جو ہر ایک بات کی تہ تک پہنچا کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جب کوئی فعل اور حادث بغیر فاعل اور محدث کے پیدا نہیں ہوسکتا تو یہ بڑا تفاوت عظیم باوجود اتحاد مادہ کیونکر ہوا اور جو جاہل اور عقل اللہ داد سے کام نہ لینے والے ہیں وہ چاہے کچھ ہی کہیں ان کا کون منہ بند کرسکتا ہے سو اگر تو ان کی باتوں سے متعجب ہے تو تیرا تعجب بھی بے محل نہیں کیونکہ ان کی باتیں ہی عجیب تعجب انگیز ہیں دیکھو تو ان کے کیسے کیسے شبہات ہو رہے ہیں کہتے ہیں کہ کیا جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے تو اس سے بعد ہم ایک نئی پیدائش میں ہوں گے؟ ایسے ہی لوگ اپنے پروردگار کی قدرت سے منکر ہیں انہی کی گردنوں میں طوق ہوں گے اور یہی جہنم میں جائیں گے اور ہمیشہ اسی میں رہیں گے جب کوئی حجت ان کی چلنے نہیں پاتی تو بے ہودہ گوئی پر اتر آتے ہیں اور بھلائی سے پہلے تجھ سے برائی کی درخواست کرتے ہیں یعنی آرزو کرتے ہیں کہ اگر تو سچا ہے تو ہم پر عذاب لے آ یہ نہیں کہتے کہ ہمیں ہدایت ہو حالانکہ ان سے پہلے ان جیسی کئی ایک مثالیں گذر چکی ہیں جو انہی کی طرح شوخیاں کیا کرتے تھے اور انبیاء کے ساتھ بضد پیش آتے تھے آخر ان کی جو گت ہوئی وہ سب کو معلوم لیکن اللہ کی پکڑ میں جلدی نہیں اور اس کی لاٹھی میں آواز نہیں۔ کیونکہ تیرا پروردگار خداوند عالم باوجود لوگوں کے ظلم و زیادتی کے لوگوں کے حال پر بڑا ہی بخشنے والا ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ خداوند عالم یعنی تیرے پروردگار کا عذاب بھی بہت ہی سخت ہے اس کی برداشت کی طاقت کسی میں نہیں مگر اس کا حلم اور اس کا رحم اس کے غضب پر غالب ہے اس کے رحم ہی کا تقاضا ہے کہ وہ لوگوں کی ہدایت کے لئے رسول بھیجتا ہے تاکہ لوگ ہدایت یاب ہو کر اس کے غضب سے امن پاویں مگر لوگ الٹے مقابلہ پر آمادہ ہوجاتے ہیں اور کافر تو روزمرہ نشان دیکھ دیکھ کر بھی کہتے ہیں کہ کیوں اس رسول پر اللہ کی طرف سے کوئی نشان نہیں اترا حالانکہ اگر نشان یعنی معجزہ نہ بھی ہو تو بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ تو تو برے کاموں پر صرف ڈرانے والا ہے اور ہر ایک قوم کے لئے ہادی اور رہنما ہو گذرے ہیں جو اپنے اپنے وقت پر ان کو راہ راست دکھاتے اور سمجھاتے رہے پر یہ نہیں جانتے کہ ہمارا اصلی معاملہ تو اللہ سے ہے جس نے بھلے برے کاموں کا ہم کو اجر دینا ہے جس سے ہماری کوئی بات کوئی حرکت کوئی سکون چھپ نہیں سکتی کیونکہ اللہ کا علم ایسا وسیع ہے کہ ظاہری اشیاء کے علم کے علاوہ وہ ہر ایک مادہ خواہ انسان ہو یا عام حیوان کے حمل کو جسے وہ اٹھاتی ہے جانتا ہے اور بعد وضع جس قدر رحم سکڑتے ہیں اور ایام حمل میں جس قدر بڑھتے ہیں سب کو جانتا ہے ہر ایک چیز اس کے نزدیک اندازہ سے ہے مجال نہیں کہ اس کے مقررہ انداز سے بڑھ جائے وہ غائب اور حاضر کو یکساں جاننے والا بڑا ہی عالیشان ہے اس کے علم کی یہ وسعت ہے کہ تم میں سے کوئی کوئی آہستہ بات کرے یا چلا کر کرے اور جو رات کے اندھیروں میں چھپ رہے یا دن دھاڑے راہ چلے اس کے پاس سب برابر ہیں گو انسان اپنی سرکشی میں اس کی نعمتوں اور احسانوں کا قائل نہ ہو لیکن اللہ نے تو آخر اسے پیدا کیا ہے اسے تو اس کی حاجتوں کا پورا علم ہے اسی لئے ہر انسان کے لئے اللہ کی طرف سے آگے پیچھے آنے والے (فرشتے) مقرر ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں اگر اللہ اپنی حفاظت مخلوق سے اٹھا لے تو ایک دم کے لئے بھی زیست محال ہوجائے یہ بھی کیا کم مہربانی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی نیک حاجت نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت خود نہ بدلیں ان لیاقتوں کو جن پر وہ نعمت مترتب ہوئی تھی ضائع نہ کریں جس کی زندہ مثال ہندوستان کے شاہان مغلیہ ہیں۔ اور جب اللہ کسی قوم کے حق میں برائی چاہتا ہے تو وہ کسی طرح نہیں ٹلتی کیونکہ کوئی اس کو ٹلانے والا نہیں اور نہ اللہ کے سوا ان کا کوئی والی وارث ہوتا ہے جو ان کی حمائت کو کھڑا ہو اور سننا چاہو تو سنو ! کہ اللہ وہی ذات پاک ہے جو عذاب کے ڈالنے اور بارش کی امید دلانے کو تمہیں بجلی دکھاتا ہے اور بھاری بھاری بادل پیدا کرتا ہے اس کی ہیبت کی یہ کیفیت ہے کہ آسمان و زمین والے تمام اس کے نام سے تھراتے ہیں اور بادلوں کی گرج اس کی پاکی سے تعریف کرتی ہے یعنی بجلی کی آواز سے بھی مفہوم ہوتا ہے کہ اللہ پاک تعریفوں کا مالک ہے اور آسمانوں کے فرشتے بھی اس کے خوف سے تسبیح پڑھتے ہیں یعنی سبحان اللہ وبحمدہ کہتے ہیں وہی بجلیاں بھیجتا ہے جس سے چمکارا نکلتا ہے پھر جس پر چاہتا ہے انہیں گراتا ہے وہ کافر اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں کوئی تو مطلقاً ہی انکاری ہے کوئی اقراری ہے تو اس جیسا اوروں کو بھی مانتا ہے اسی قسم کی کئی ایک کج بحثیاں کرتے ہیں حالانکہ اس کی گرفت کے دائو بڑے مضبوط ہیں شان نزول (وھم یجادلون) عرب کے مشرکوں بےدینوں کی بدذاتی کی بھی کوئی مدد نہ تھی ایک شخص کے سمجھانے کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چند ایک صحابہ کو بھیجا جب انہوں نے اسے وعظ کہا تو وہ شخص نہایت سرکشی اور تکبر سے بولا کہ جس اللہ کی طرف تم مجھے بلاتے ہو وہ کس چیز سے بنا ہوا ہے چاندی سے یا سونے سے صحابہ کو یہ لفظ اس کا نہایت ہی ناگوار گذرا چنانچہ وہاں سے واپس آئے اور آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہو کر ماجرا عرض کیا آپ نے فرمایا پھر جائو اور اسی طرح اسے سمجھائو وہ بدذات پھر اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ سرکشی سے پیش آیا تیسری دفعہ پھر آپ نے بھیجا نالائق نے پھر وہی کلمات بکے اتنے میں ابھی صحابہ کرام اس کے مکان پر ہی بیٹھے تھے کہ بادل آیا اور گرجا بجلی اس پر گری جس سے وہ جل کر خاکستر ہوگیا اور صحابہ جو اس کے مکان پر گئے تھے۔ بڑی خوشی سے ظالم کی ہلاکت کی خوشخبری حضرت کی خدمت میں پہنچانے کو آئے آگے سے ان کو دیگر چند صحابہ ملے اور بتلایا کہ تمہارا دشمن ہلاک ہوگیا انہوں نے جو اس کے مکان پر آرہے تھے پوچھا کہ تم کو کس نے بتلایا انہوں نے کہا کہ حضرت پر یہ آیت نازل ہوئی تو آپ نے ہمیں بتلایا ہے۔ سچ ہے موت نے کردیا لاچار وگرنہ انساں تھا وہ کافر کہ اللہ کا بھی نہ قائل ہوتا وہ اگر کسی بلا میں انہیں پھنسانا چاہے گا تو کچھ نہیں کرسکیں گے اسی کی پکار سچی ہے یعنی جو لوگ اسے پکارتے ہیں اور اسی سے دعائیں مانگتے ہیں ان کا فعل شمر براہ راست ہے اور فائدہ مند اور جو لوگ اس کے سوا اوروں سے دعائیں کرتے ہیں ان کی پکار بالکل رائگاں ہے کیونکہ وہ ان کی دعائوں کو ذرا بھی قبول نہیں کرسکتے ان کی مثال بالکل اس بے عقل آدمی کی طرح ہے جو شدت پیاس کے وقت پانی کی طرف ہاتھ پھیلائے کہ کسی طرح وہ اس کے منہ تک پہنچ جائے وہ تو پہنچ چکا اور اس کا کام ہوچکا وہ نہ پہنچے گا اور نہ اس کا کام بنے گا یہی وجہ ہے کہ کافروں کا انجام بخیر نہیں اور کافروں کی دعائیں جو اللہ کے سوا اس کی مخلوق سے مانگتے ہیں اور ان کو پکارتے ہیں سراسر گمراہی اور بے راہی میں ہیں دیکھو تو کیسی گمراہی اور جہالت ہے کہ ایسے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں سے استمداد کرتے ہیں جس کی فرمانبرداری تمام آسمانوں والے اور زمینوں والے بعض نیک دل خوشی سے اور بعض بدبخت شقی القلب کراہت اور ناخوشی سے کر رہے ہیں یعنی ایماندار تو اس کی اطاعت بخوشی برداشت کرتے ہیں اور بے ایمان اڑے وقت اس کی اطاعت کا دم بھرتے ہیں اور بالکل اس شعر کے مصداق بنتے ہیں عامل اندر زمان معزولی شیخ شبلی دبا یزید شوند اور اگر بغور دیکھیں تو ان کے سائے بھی صبح و شام اللہ کی اطاعت کر رہے ہیں۔ اور سربسجدہ ہیں یعنی ان کے سایہ جو ادھر ادھر سورج کے مقابلہ پر گھومتے رہتے ہیں وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہم اور ہماری اصل کسی دوسری سے متاثر اور منفعل ہیں نہ کہ واجب الوجود اور مستقل بالذات یہی ان کا سجدہ ہے پس تو کھلے لفظوں میں ان سے پوچھ کہ تم جو غیروں سے استمداد اور استعانت کرتے ہو یہ تو بتلائو کہ آسمانوں اور زمینوں اور ان کے باشندوں کا پروردگار کون ہے تو خود ہی کہہ اور یہ لوگ بھی تیرے ساتھ زبانی متفق ہوں گے کہ سب چیزوں کا پروردگار اللہ ہی ہے جب یہ اس جواب کو غلط نہیں جانتے تو تو ان سے ایک اور بات کہہ جو اسی پر متفرع ہے کہ کیا پھر بھی تم نے اللہ کے سوا ایسے کارساز بنا رکھے ہیں جو تمہیں کچھ فائدہ پہنچانا تو درکنار اپنے لئے بھی نفع یا نقصان کا اختیار نہیں رکھتے اے نبی تو یہ بھی ان سے کہہ کہ یہ کام جو تم کر رہے ہو کہ اللہ مالک الملک کارساز کے ہوتے ہوئے عاجز بندوں کو اپنا کارساز سمجھتے ہو صریح اندھا پن ہے تو پوچھ کہ بھلا اندھا اور سوانکھا برابر ہیں یا کہیں اندھیرے اور روشنی برابر ہوتے ہیں اللہ کی توحید اور اس سے نیاز مندگی کا تعلق یہ نور اور بینائی ہے اور اس سے الگ ہو رہنا اور اسی اکیلے کو اپنا کارساز متولی امور جاننا صریح اندھا پن اور ظلمت ہے جن لوگوں کو انہوں نے اللہ کا ساجھی بنا رکھا ہے کیا انہوں نے بھی اللہ جیسی کوئی مخلوق بنائی ہے کہ مخلوقات ان پر مشتبہ ہوگئی ہیں کہ کس کو کس کی کہیں کچھ نہیں صرف ان کے توہمات ہیں پس تو کہہ کہ اللہ ہی سب چیزوں کا خالق ہے اور وہی اکیلا سب پر ضابط ہے مجال نہیں کہ کوئی چیز اس کے احاطہ قدرت سے باہر ہوسکے وہی ہمیشہ بادل سے پانی اتارتا ہے جس سے ندی نالے اپنی اپنی قدر موافق بہتے ہیں پھر بہتا ہوا پانی جھاگ کو اپنے اوپر اٹھا لیتا ہے اور جس چیز پر سونا ہو یا چاندی کٹھالی میں ڈال کر سنار لوگ زیور یا سامان بنانے کے لئے آگ جلاتے ہیں اس میں سے بھی اسی بہنے والے پانی کی طرح جھاگ ہوتا ہے جو خالص سونے پر غالب آتا ہے یہ مثال ہے حق اور باطل کی حق پر باطل جھاگ کی طرح چھا جاتا ہے پھر اللہ سچ اور جھوٹ بیان کرتا ہے یعنی جھوٹ کی برائی اور سچ کی خوبی بتاتا ہے پھر اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جھاگ جھوٹ دور ہوجاتا ہے اور جو چیز لوگوں کے حق میں نافع ہوتی ہے وہ زمین میں ٹھیر رہتی ہے اسی طرح اللہ لوگوں کے سمجھانے کو مثالیں اور کہاوتیں بتلاتا ہے مطلب اس مثال کا یہ ہے کہ جس طرح صاف شفاف پانی پر جھاگ آجاتا ہے اسی طرح اللہ کی سچی تعلیم پر لوگوں کی جہالت کا سایہ پڑجاتا ہے جس کی وجہ سے اہل حق دب جاتے ہیں اور اہل باطل ان کو ایذائیں اور تکلیفیں پہنچاتے ہیں ایسے حال میں جو لوگ اپنے پروردگار کا کہا مانتے ہیں انہیں کے لئے بہتری اور انجام بخیر ہے اور جو لوگ اس اپنے پروردگار کا کہا نہیں مانتے ان کی ایسی بری گت ہوگی کہ اگر دنیا کا تمام مال اور اسی جتنا اور زر و مال ان کو میسر ہوسکے تو اس تکلیف اور مصیبت سے چھوٹنے کو وہ سارے کا سارا بدلے میں دے دینا منظور کریں گے۔ مگر کیا وہ قبول بھی ہوگا حاشا و کلا ہرگز نہیں انہیں کے لئے برا حساب ہوگا اور ان کا آخری ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت بری جگہ ہے کیونکہ وہ دیدہ دانستہ اندھے بنے