سورة البقرة - آیت 8

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور لوگوں میں سے بعض وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان لائے درحقیقت وہ ایمان والے نہیں ہیں

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

اور تیسری قسم عام انسانوں میں بعض لوگ ایسے ہیں جو مسلمانوں سے رسوخ پیدا کرنے کو کہتے ہیں کہ ہم اللہ کو مانتے اور قیامت پر یقین رکھتے ہیں مگر یہ باتیں انکی سب زبانی ہی ہیں اوپر سے چاپلوسی کرتے ہیں حالانکہ دل سے ان کو ایمان نہیں ایسے بد معاش مطلب کے یار ہیں اگر ہوسکے تو اللہ کو بھی فریب دیے جائیں چنانچہ یہ کاروائی ان کی دیکھنے سے دانا صاف جان جائیں گے کہ گو یا اللہ کو دھو کہ دیتے ہیں کیونکہ ایمان کا اظہار کرنا اور اندر کفر چھپانا اس لئے ہے کہ اللہ ان کے ظاہری ایمان کو دیکھ کر ان سے مومنوں کا سا معاملہ کرے ہرگز نہیں اللہ تو عالم الغیب ہے البتہ عام مسلمانوں کو جو غیب نہیں جانتے دھوکہ دیتے ہیں اور ان سے جو مطلب نکالنا ہو نکال لیتے ہیں مگر جان رکھیں کہ درحقیقت اپنی جانوں ہی سے فریب کرتے ہیں کیونکہ اس کا وبال آخر کار انہی کی جانوں پر ہوگا لیکن اپنی نادانی سے سمجھتے نہیں بھلا وہ ضرر کو سوچیں بھی کیا ؟ ان کے دلوں میں تو بیماری ہے۔ اور اللہ حکیم نے مطلق کی بتلائی ہوئی دوا قرآن مجید کو استعمال نہیں کرتے پس اللہ نے بھی ان کی بیماری زیادہ کردی یہ نہ جانیں کہ اس دوا کرنے سے نہ چھوٹ جائیں گے جس چیز کی چند صفات ہوں اس کی ہر صفت کا ظہور ضروری ہے خواہ وہ صفات متضاد ہی کیوں نہ ہوں اپنے اپنے موقع ہر سب کا ظاہر ہونا ضروری ہے۔ جیسے انسان کی صفات اٹھنا۔ بیٹھنا۔ بولنا۔ سکوت کرنا۔ چلنا۔ ٹھیرناوغیرہ ہر ایک صفت باوجود تضاد کے اپنا اپنا اثر دکھا رہی ہے۔ ! اللہ تعالیٰ جیسا خالق، مالک، رحیم، عادل، کامل ہے ویسا ہی اس کا غضب بھی اعلیٰ درجہ کا ہے جس کی برداشت ممکن نہیں۔ بلکہ جس قدر صفات کاملہ مخلوق میں پائی جاتی ہیں سب کی سب ذات باری جل مجدہٗ کی صفات کاملہ کے نمونے ہیں۔ پسؔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ کی صفت خلق (پیدا کرنے کی) تو خلقت کے پیدا کرنے سے ظاہر ہوئی لیکن اتنی ہی بات سے باقی صفات کا تقاضا پورا نہیں ہوسکتا تھا۔ جب تک کہ ان کے آثار بھی نہ پائے جائیں چونکہ وہ صفات بظاہر کسی قدر متضاد بھی ہیں اس لئے اللہ عالم جل مجدہٗ نے جو بڑا عالم الغیب ہے ان صفات کے ظہور کے لئے جیسے کہ صفات مختلف نہیں ویسے ہی طریق اظہار بھی مختلف ایجاد کئے ایک طرف شیطان اور شہوات نفسانیہ پیدا کیں۔ جو لوگ ان کے پیچھے چلیں وہ مورد غضب بنیں۔ چونکہ بلحاظ انسانی طبائع کے قریب قریب تمام لوگوں کا اس میں پھنس جانا بھی کچھ مشکل نہ تھا۔ اور یہ طریق صفت عدل کے مخالف تھا۔ اس مخالفت کے دور کرنے کو اللہ نے انبیاء علیہم السلام بھیجے اور قویٰ ملکوتیہ کو پیدا کیا۔ جن سے انسان اپنے نفع نقصان کو سوچے۔ بعد سوچ کے موافق ارشاد انبیاء علیہم السلام سیدھی راہ پر چلے تو صفت عدل کا تقاضا پورا ہو۔ کہ وعدہ الٰہی کے موافق انعام اکرام کا مستحق ٹھیرے۔ رہا تقاضا رحم سو اس طرح پورا کیا کہ جو لوگ بعد قصور اپنے آپ کو نادم کریں اور اللہ کے آگے گڑگڑائیں۔ یا باوجود تقصیرات کے کسی ضروری حکم کی تعمیل کرچکے ہوں تو ان کو یا تو بغیر کسی مواخذہ کے معافی دی جائے یا بعد کسی قدر مواخذہ کے چھوڑا جائے بلکہ بعض بوجہ اخلاص کامل کے مورو انعام بھی ہوں۔ پس ثابت ہوا کہ یہ تمام سلسلہ ظاہری اور باطنی دراصل صفات اللہ کے آثار ہیں اور ایسا ہونا بھی ضروری تھا۔ اس ہمارے تقریر سے اس شبہ کا بھی جواب آگیا جو عوام لوگ کیا کرتے ہیں کہ اللہ نے شیطان کو کیوں پیدا کیا انبیاء کو کیوں بھیجا؟ اور یہ بھی ثابت ہوا کہ صفات اللہ باوجود تضاد کے اس طریق سے سب کی سب پوری ہوجاتی ہیں نہ جیسا کہ عیسائیوں نے غلط فہمی سے اللہ کے عدل کو پورا کرنے کے لئے مسیح کا کفارہ تجویز کیا۔ جو بجائے عدل کے سراسر ظلم ہے۔ وللبحث مقام اٰخر (منہ)