وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ نُوحٍ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُم مَّقَامِي وَتَذْكِيرِي بِآيَاتِ اللَّهِ فَعَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْتُ فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوا إِلَيَّ وَلَا تُنظِرُونِ
” اور انھیں نوح کی خبر پڑھ کر سنائیں جب اس نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم! اگر میرا کھڑا ہونا اور اللہ کی آیات کے ساتھ میرا نصیحت کرنا تم پر گراں گزرتا ہے تو میں نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا ہے، پس تم اپنا معاملہ اپنے شرکاء کے ساتھ مل کرمتفقہ فیصلہ کرلو پھر تمہارا معاملہ تم پر کسی طرح مبہم نہ رہے پھر میرے ساتھ کر گزرو اور مجھے مہلت نہ دو۔“
(71۔98) عقلی دلائل تو سن چکے ہو اور ایک نقلی دلیل بتلانے کی غرض سے ان کو حضرت نوح کی خبر سنا جب اس نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا اے میرے بھائیو ! اگر محض میرا اس جگہ رہنا اور اللہ کے حکموں کا وعظ سنانا تم پر گراں اور ناپسند ہے تو جو کچھ چاہو کرلو میرا بھروسہ اللہ ہی پر ہے پس تم اپنی ساری تدبیر سوچ لو اور اپنے بنائے ہوئے ساجھیوں کو بھی اس مجلس شوریٰ میں شریک کرلو غرض سب مل کر ایک جا کوشش کرو اور کسی طرح اپنے کام کو نہ بھولو پھر جو مجھ پر کرنا چاہو کرلو اور ذرہ بھر مجھے ڈھیل نہ دو میری طرف سے ایک ہی منتر تمہارے مقابلہ پر کافی ہے جو میں تمہیں بتلا بھی دیتا ہوں سنو ! سپردم باد مایہ خویش را او داند حساب کم و بیش را سو اگر تم میری تعلیم سے منہ پھیرتے ہو تو مجھ پر اس کا نقصان نہیں کیونکہ میں تم سے اس کی مزدوری نہیں مانگتا میری مزدوری تو صرف اللہ ہی کے پاس ہے اور مجھے یہی حکم ہے کہ میں بجائے چوں و چرا کرنے کے سیدھا اس کے فرمانبرداروں سے بنوں پھر ایسے ملائم لفظوں میں سمجھانے پر بھی لوگوں نے اس کی بات نہ مانی پس ہم نے اس کو اور اس کے ساتھ والوں کو بیڑی کے ذریعہ بچا لیا اور انہیں کو کافروں کا جانشین بنایا یعنی بعد ہلاکت کفار کے اس علاقہ میں مومن آباد رہے تھے اور جنہوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی تھی ان کو غرق آب کردیا پس تو غور کر کہ ان ڈرائے ہوئوں کا کیسا بد انجام ہوا پھر ہم نے اس نوح ( علیہ السلام) سے پیچھے کئی ایک رسول قوموں کی طرف بھیجے پس وہ ان کے پاس دلائل بینہ لائے مگر پھر بھی وہ جس چیز کو پہلے ایک دفعہ جھٹلا چکے تھے اس پر ایمان نہ لائے اپنی ہی ضد پر اڑے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو دھتکار ہوئی اسی طرح حدود عبودیت سے بڑھنے والوں کے دلوں پر ہم مہر کردیا کرتے ہیں ان سے توفیق خیر بھی چھن جاتی ہے پھر بھی ہم نے لوگوں کو بے ہدایت نہ چھوڑا بلکہ ان سے پیچھے موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کی جماعت کی طرف بھیجا پس وہ بجائے ماننے اور ہدایت پانے کے الٹے متکبر ہو بیٹھے لگے اپنی امیری کے گیت گانے امیری غریبی پر موقوف نہیں بعض انسان اپنی خو خصلت میں شریر اور بد ذات ہوتے ہیں فرعونیوں میں دونوں عیب تھے متکبر بھی اعلیٰ درجے کے تھے اور بدکار قوم بن گئے جب ہمارے پاس سے ان کو حق پہنچا اور تو کوئی جواب نہ دے سکے کہنے لگے یہ تو صریح جادو کی قسم ہے حضرت موسیٰ نے کہا کہ جب حق بات تمہارے پاس آئی تو اسے جادو کہتے ہو اندھے ہو دیکھتے نہیں کیا یہ جادو ہے جو مقابلہ میں دیکھ چکے ہو میں تو اس بات کو اللہ تعالیٰ کی نسبت کہہ کر کامیاب ہوگیا ہوں اور جادوگر تو کبھی کامیاب نہیں ہوتے وہ عقل کے پتلے یوں بولے کیا تو اے موسیٰ ہمارے پاس اسی لئے رسول بن کر آیا ہے کہ جس دین پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو عمل کرتے ہوئے پایا ہے اس دین سے ہم کو پھسلا دے اور آپ ہمارا مقتدا بن کر جدھر چاہے چلا دے تاکہ زمین مصر میں تم دونوں بھائیوں کی بڑائی اور حکومت قائم ہو پس تم یاد رکھو کہ ہم تمہاری غرض سمجھ گئے ہیں اس لئے ہم تمہاری بات کبھی نہ مانیں گے اور وہ بڈھا میاں فرعون بولا میرے پاس ہر ماہر فن جادوگر کو وظیفہ اور مال کثیر دے کر ملک کے ہر حصے سے لائو گو ہم ان کو یوں بھی مروا سکتے ہیں مگر ایسی جلدی بھی کیا ہے پہلے ان کے فن کا مقابلہ تو کرائیں حکم کی دیر تھی سب ساحر حاضر ہوگئے میدان مقرر ہوا فریقین کے حمایتی اور تماشبین لوگ سب جمع ہوئے پھر جب جادوگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے آئے تو ان کے سوال کرنے پر موسیٰ نے محض اللہ تعالیٰ کا بھروسہ کر کے ان سے کہا کہ جو کچھ تم میرے مقابلہ پر ڈالنا چاہتے ہو ڈال دو تمہارے ارمان باقی نہ رہ جائیں پھر جب وہ اپنے ڈالنے کی قابل چیزیں ڈال چکے تو موسیٰ نے کہا بس تمہاری کل کائنات یہی ہے نادانو ! جو کچھ تم لائے ہو نظر بند جادو ہے بے شک اللہ تعالیٰ اس کو برباد اور ملیامیٹ کرے گا کیونکہ یہ اصلاح کے مقابلہ میں فساد ہے اور اللہ تعالیٰ مفسدوں کے عمل سنوارا نہیں کرتا انجام کار وہی فساد ان کی بربادی کا موجب ہوتا ہے اور ہم تمہیں اعلان کئے دیتے ہیں کہ اللہ اپنے حکم سے دین کو مضبوط کرے گا گو کافروں کو یہ برا لگے اتنا سن سنا کر پھر بھی فرعون کی قوم سے صرف چند آدمی حضرت موسیٰ پر ایمان لائے سو بھی فرعون اور اس کی جماعت اور پولیس مینوں اور سپاہیوں سے ڈرتے ہوئے کہ کہیں کسی بلا میں مبتلا نہ کر دے اور اگر بظاہر دیکھا جائے تو ان کا خوف بجا تھا کیونکہ فرعون زمین مصر میں بڑا ہی متکبر اور مغرور تھا اور ساتھ ہی اس کے وہ حد سے بھی بڑھا ہوا تھا جب فرعون نے دیکھا کہ عام رائے حضرت موسیٰ کی طرف ہوتی جاتی ہے تو اس نے موسیٰ کے نام لیوائوں کو سخت شدت سے تکلیف پہچانی شروع کی چنانچہ بنی اسرائیل سب کے سب حضرت موسیٰ کے پاس فریادی اور شاکی ہوئے اور موسیٰ نے ان کے جواب میں کہا بھائیو ! اگر اللہ پر ایمان لائے ہو تو ان تکلیفوں میں اسی پر توکل اور بھروسہ کرو اگر تم فرمانبردار ہو تو ایسا ہی کرو پس یہ سنتے ہی بنی اسرائیل کو ایسا اثر ہوا کہ وہ سب ایک زبان بولے کہ ہم نے اللہ پر توکل کیا دعا کرتے ہوئے کہنے لگے اے ہمارے مولیٰ ہمیں ظالموں کے لئے امتحان مت بنا کہ وہ ہمارے ساتھ آزمائے جائیں گو یہ ٹھیک ہے کہ ” خانہ ظالم برباد لیکن“ بعد بربادی مظلوم سے ڈر لگتا ہے اور اپنی مہربانی کے ساتھ فرعونی کافروں کے عذاب سے ہمیں نجات بخش ہم نے ان کی یہ دعا قبول کی اور ہم (اللہ) نے موسیٰ اور اس کے بھائی ہارون کو وحی کی کہ فرعونیوں کی تکلیفوں پر چند ایام صبر کرو اور مصر کے گھروں ہی میں اپنی قوم کو مصر میں گھروں کے اندر کو ٹھیرائے رکھو یعنی ہجرت کرنے میں جلدی نہ کرو اور اپنے گھروں کو عبادت گاہیں بنا لو تاکہ فتنہ حکومت سے بچ کر گھروں ہی میں عبادت کرلیا کرو اور انہیں میں نماز پڑھ لیا کرو کیونکہ فرعون تم کو عبادت کرنے سے مانع ہے اور تکلیف پر صبر کرنے والے ایمانداروں کو خوشخبری سنائو کہ ان کے لئے انجام بہتر اور فتح نمایاں ہے چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور حضرت موسیٰ نے کہا اے ہمارے پروردگار ہم تعمیل حکم کو حاضر ہیں مگر تو نے فرعون کو اور اس کی جماعت کو دنیا میں زینت اور مال کثیر دے رکھا ہے جس کا نتیجہ ان کے حق میں یہ ہے کہ وہ لوگوں کو تیری راہ سے گمراہ کرتے ہیں پس اے ہمارے مولا ! ان کے مالوں پر وبال ڈال اور ان کے دلوں کو سخت کر پس جب تک وہ دکھ کی مار نہ دیکھیں ایمان نہ لائیں جیسی ان کے حال سے توقع ہے حضرت موسٰی ( علیہ السلام) دعا کرتے تھے اور ہارون ( علیہ السلام) آمین کہتے تھے اللہ تعالیٰ نے کہا تمہاری دونوں بھائیوں کی دعا قبول ہوئی پس تم دونوں بھائی مضبوط رہنا اور جاہلوں کی راہ پر نہ چلنا کیونکہ ایسی سختی کے موقع پر نادان لوگ عموماً بےدینوں سے مصالحت اور ملاپ کی رائے دیا کرتے ہیں تم نے ان کی بات اور مشورہ نہ سننا چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور ہم بنی اسرائیل کو دریا سے عبور کرانے کو تھے کہ فرعون اور اس کے لشکر نے ضد اور عداوت سے ان کا پیچھا کیا کہ راہ میں پکڑ کر ہلاک کریں چنانچہ اسی دھن میں دریا میں کود پڑے پس بجائے پکڑنے کے خود پکڑے گئے یہاں تک کہ جب فرعون غرق ہونے لگا تو بولا میں ایمان لایا ہوں کہ اس اللہ کے سوا جس پر بنی اسرائلک کو ایمان ہے کوئی معبود نہیں نہ میں نہ کوئی اور حقیقت یہ ہے کہ میں اس کے فرماں برداروں سے ہوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتہ نے جواب دیا کہ اب ایمان لاتا ہے اس سے پہلے تو تو مدت مدید بے فرمانی کرچکا ہے اور تو بڑا مفسد تھا پس آج کے روز ہم (اللہ) تیرا ایمان تو قبول نہ کریں گے البتہ تیرے جسم کو باہر پھینکیں گے تاکہ تو اپنے پچھلے لوگوں کے لئے جو تجھ سے نالائق محتاج کو اللہ تعالیٰ اور معبود سمجھتے تھے عبرت کا نشان ہو اور یہ ہم جانتے ہیں کہ بہت سے لوگ ہماری قدرت کی نشانیوں سے غافل ہیں ہرچند فرعون تگ و دو کرتا رہا تاکہ میری حکومت کمزور نہ ہو مگر ہمارے ارادوں کے مقابلہ پر اس کی ایک نہ چلی آخر وہ ہلاک ہوا اور بنی اسرائیل کو ہم نے سچے وعدہ گاہ پر پہنچایا یعنی جس زمین (کنعان) کے دینے کا ان سے وعدہ تھا وہ ان کو دی اور ان کو پاکیزہ اور عمدہ عمدہ قسم کے طعام کھانے کو دئیے پھر وہ حسب وعدہ تورات اس امر پر متفق رہے کہ موسٰی ( علیہ السلام) کی مانند ایک نبی ضرور آئے گا اس امر میں وہ کبھی بھی مختلف نہ ہوئے مگر جب ان کو قطعی علم اس کی تصدیق کا ہوگیا یعنی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مانند ہیں تشریف لے آئے بے شک جن جن باتوں میں اہل حق سے یہ اختلاف کر رہے ہیں تیرا رب یعنی اللہ تعالیٰ قیامت کے روز ان میں بیّن فیصلہ کرے گا اور فرضاً اگر تجھے بھی ہمارے اتارے ہوئے کلام میں شک اور واہمہ گذرے یعنی اس خیال سے کہ یہ لوگ اہل کتاب جو اہل علم ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں تیرے ایسے شدید مخالف ہو رہے ہیں اس کو بتقاضائے بشریت تجھے یہ خیال گذرے کہ مبادا میں ہی غلطی پر نہ ہوں تو جو لوگ تجھ سے پہلی کتاب سمجھ کے ساتھ معانی پر غور و فکر کر کے پڑھتے ہیں ان سے پوچھ لے بے شک وہ تصدیق کریں گے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تجھے سچی بات پہنچی ہے پس تو ہرگز شک کرنے والوں سے مت ہوجیو اور نہ ان لوگوں میں ملیو جو اللہ کے حکموں کی تکذیب کرتے ہیں ورنہ تو بھی خسارہ پانے والوں میں ہوجائے گا یہ خیال مت کر کہ یہ لوگ کیوں نہیں مانتے کیونکہ جن لوگوں پر ان کے تکبر اور سرکشی کی وجہ سے تیرے رب کے غضب کا حکم لگ چکا ہے جب تک وہ دکھ کی مار نہ دیکھیں گے کبھی ایمان نہ لائیں گے اگرچہ ان کو ہر قسم کے نشان بھی پہنچ جائیں ایسے لوگ نشان دیکھ کر ایمان لانے والے ہوتے تو کیوں نہ کوئی بستی یا قوم ایمان لائی ہوتی جس کو ایمان سے بوجہ صحیح الایمان ہونے کے اللہ تعالیٰ کے نزدیک نفع بھی ہوتا یعنی کوئی کافر قوم ایسے وقت میں ایمان نہ لائی جو ایمان لانے کے لئے مقرر ہے مگر یونس ( علیہ السلام) کی قوم پر شاباش کہ وہ عذاب دیکھنے سے پہلے ہی صرف اس بات پر خوف کھا کر کہ حضرت یونس ( علیہ السلام) کشفی طور پر عذاب کے آثار دیکھ کر انسے نکل گئے تھے ساری قوم تائب ہوئی اور اللہ تعالیٰ کی طرف جھکی پھر جب وہ پختہ ایمان لا چکے تو ہم نے بھی ذلت کا عذاب ان سے دنیا میں دور کردیا اور ایک وقت یعنی مدت دراز تک ان کو آسودگی سے متمتع کیا ) مرزا صاحب قادیانی کی متحد یا نہ پیشگوئیاں جب غلط ہوئیں تو انہوں نے حضرت یونس (علیہ السلام) کے قصے کو اپنی سند بنایا جسے آج تک بھی ان کے اتباع پیش کیا کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ حضرت یونس ( علیہ السلام) نے قوم کو عذاب کا وعدہ دیا تھا جو ان کے ڈر جانے سے ٹل گیا۔ اسی طرح مرزا صاحب نے جس جس کی موت کی پیشگوئی کی اس کے ڈر جانے سے ٹل گئی تو کیا تعجب ہے۔ جواب :۔ یہ ہے کہ ایسا کہنا سیاق قرآنی کے صریح خلاف ہے قرآن مجید کی اسی آیت میں صاف مذکور ہے کہ حضرت یونس کی قوم جب ایمان لائی تو ان پر سے کفر کی سزا ہٹ گئی یہ تو بدیہی ہے کہ ایمان لانے کے معنے یہ ہیں کہ اس نبی کو اللہ تعالیٰ کا مرسل سمجھیں اور اس کی مخالفت چھوڑ کر اس کا اتباع کریں۔ ہم مانتے ہیں کہ ایسا ایمان موجب نجات ہوتا ہے لیکن کیا مرزا صاحب کے مخالف جن کے حق میں ان کی پیشگوئیاں تھیں ایسا ایمان لائے تھے کیا عبداللہ آتھم (عیسائی) ایمان لایا تھا۔ کیا منکوحہ آسمانی کا ناکح اپنے فعل سے تائب ہوا تھا؟ وغیرہ ہرگز نہیں۔ پھر حضرت یونس ( علیہ السلام) کے قصے کو کیا تعلق جو کچھ اس قصے میں ہے ہمیں مسلم ہے اور جو ہے وہ ان کو مفید نہیں بلکہ مضر ہے۔ اللہ اعلم (