وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ مِّنْ عِندِ اللَّهِ خَيْرٌ ۖ لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ
اگر یہ لوگ صاحب ایمان اور پرہیز کرنے والے ہوتے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہترین ثواب پاتے کاش کہ وہ اسے جان لیتے
(103۔104)۔ اور اگر یہ ایماندارہوتے یعنی اللہ کے حکموں کو مانتے اور پرہیزگاری کرتے تو بڑی عزت پاتے کیونکہ اللہ کے ہاں کا بدلہ سب سے اچھا ہے کاش یہ سمجھیں سمجھیں تو اب بھی مان جائیں افسوس کہ بجائے ماننے کے انہوں ایک عادت قبیحہ اختیار کر رکھی ہے کہ گول مول الفاظ بولتے ہیں کہ جس سے مخاطب کچھ اور سمجھے اور ان کے جی میں کچھ اور ہو چنانچہ تمہاری محفل میں جب آتے ہیں تو ہمارے رسول کو دبی زبان سے راعنا کہہ کر گالی دی جاتی ہے جس کا مطلب تم لوگ اپنے خیال میں یہی سمجھتے کہ آنحضرت سے التجا کرتے ہیں کہ ہماری طرف التفات فرمائیے مگر وہ یہودی اس سے اپنے جی کچھ اور ہی خیال کر کے کہتے ہیں انہیں کو دیکھ کر تم بھی ایسا بولنے لگ گئے ہو۔ اس لئے ہم اعلان دیتے ہیں کہ اے مسلمانو ! تم راعنا مت کہا کرو گو تمہاری وہ مراد نہیں جو ان کم بختوں کی ہے پھر بھی کیا ضرورت ہے کہ ایسے کلمات بولو جن سے ان کی بیہودہ گوئی کارواج ہو اس لئے مناسب ہے کہ یہ چھوڑ دو اور انظرنا کہا کرو جو اسی کے ہم معنیٰ ہے بہتر تو یہ ہے کہ جب تم رسول کی خدمت میں آئو تو کچھ بھی نہ کہا کرو بلکہ خاموش رہو اور سنتے رہا کرو اس لئے کہ بولتے بولتے انسان کو زیادہ گوئی کی عادت ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے کبھی نہ کبھی گستاخی کر بیٹھتا ہے جس کے سبب سے کفر تک نوبت پہنچ جاتی ہے اور کافروں کو نہائت درد ناک عذاب ہوگا۔ شان نزول : (ولا تقولو اراعنا) یہودی حضور اقدس کی خدمت میں حاضر ہوتے تو اپنے بھرے ہوئے غصہ سے جو شوکت اسلام کی وجہ سے ان کے دلوں میں جوش زن تھا آنجناب کو صریح لفظوں میں تو کچھ نہ کہہ سکتے پر کمینوں کی طرح ایک ایسا لفظ بولتے کہ جس سے عام مسلمان صاف معنے سمجھیں اور وہ اپنے دلی جوش کے مطابق کچھ اور ہی مراد لیں چنانچہ انہوں نے راعِنَا کو اس مطلب کے لئے تجویز کیا جس کے معنے یہ تھے کہ آپ ہماری طرف التفات فرمائے اور اگر اس کو ذرا لمبا کر کے راعِیْنَا کہیں تو اسی کے معنے ہوجاتے ہیں ” خادم اور کمینہ ہمارے“ وہ اسی طرز سے کہتے پس مسلمانوں کو اس کلمہ کہنے سے منع کیا گیا اور بجائے انظرنا جو اسی کی مثل دیکھنے کے معنے میں تھا مقرر ہوا تاکہ ان کی بھی عادت چھوٹ جائے۔ منہ