سورة الاعراف - آیت 33

قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” فرما دیں میرے رب نے تو صرف بے حیائیوں کو حرام کیا ہے جو ان میں سے ظاہر ہیں اور جو چھپی ہوئی ہیں۔ گناہ اور ناحق زیادتی کو اور یہ کہ تم اللہ کے ساتھ اسے شریک ٹھہراؤ جس کی اس نے کوئی دلیل نازل نہیں کی اور یہ کہ تم اللہ کے ذمے وہ بات لگاؤ جو تم نہیں جانتے۔“ (٣٣)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان محرمات کا ذکر فرمایا جن کو اس نے تمام شریعتوں میں حرام قرار دیا ہے۔ فرمایا : ﴿قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ﴾ ” کہہ دیجیے ! بے شک میرے رب نے حرام کیا ہے بے حیائی کی باتوں کو“ یعنی بڑے بڑے گناہ جن کی برائی اور قباحت کی وجہ سے ان کو فحش اور سخت قبیح سمجھا جاتا ہے مثلاً زنا، سدومیت (عمل قوم لوط) وغیرہ۔ ﴿مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ  ﴾” جوان میں کھلی ہوئی ہیں اور جو چھپی ہوئی ہیں“ یعنی وہ فواحش جن کا تعلق بدن کی حرکات سے ہے اور وہ فواحش جن کا تعلق قلب کی حرکات سے ہے مثلاً تکبر، خودپسندی، ریاء اور نفاق وغیرہ ﴿وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ﴾ ”اور گناہ کو اور ناحق کی زیادتی کو“ یعنی گناہ کے اعمال جو گناہ میں مبتلا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حقوق کے بارے میں سزا کے موجب ہیں اور (ْبَغْي) سے مراد ہے لوگوں کے جان و مال اور عزت و ناموس میں ان پر زیادتی وغیرہ۔ پس اس میں وہ تمام گناہ داخل ہیں جو حقوق اللہ اور حقوق العباد سے متعلق ہیں۔ ﴿ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللَّـهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا ﴾” اور اس بات کو کہ شریک کرو اللہ کا ایسی چیز کو کہ جس کی اس نے سند نہیں اتاری“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس شرک پر کوئی دلیل و برہان نازل نہیں فرمائی بلکہ اللہ تعالیٰ نے توحید کی تائید کے لئے دلائل و براہین نازل فرمائے ہیں اور شرک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اس کے ساتھ مخلوق میں سے کسی کو شریک ٹھہرایا جائے۔ بسا اوقات شرک اصغر بھی اسی زمرے میں آجاتا ہے۔ مثلاً ریاء اور غیر اللہ کی قسم وغیرہ۔ ﴿ وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّـهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ﴾ ” اور اس بات کو کہ اللہ کے ذمے وہ باتیں لگاؤ جو تم نہیں جانتے“ یعنی اس کے اسماء و صفات، افعال اور اس کی شریعت کے بارے میں لاعلمی پر مبنی بات کہنا۔ ان تمام امور کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے اور بندوں کو ان میں مشغول ہونے سے روکا ہے کیونکہ یہ امور مفاسد عامہ اور مفاسد خاصہ پر مشتمل ہیں اور یہ امور ظلم و تعدی اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی جناب میں جسارت و جرأت کے موجب، اللہ تعالیٰ کے بندوں پر دست درازی اور اللہ تعالیٰ کے دین اور شریعت میں تغیر و تحریف کا باعث ہیں۔