سورة المآئدہ - آیت 103

مَا جَعَلَ اللَّهُ مِن بَحِيرَةٍ وَلَا سَائِبَةٍ وَلَا وَصِيلَةٍ وَلَا حَامٍ ۙ وَلَٰكِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ ۖ وَأَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اللہ نے نہ کوئی بحیرہ مقرر فرمائی ہے اور نہ کوئی سائبہ اور نہ وصیلہ اور حام اور لیکن وہ لوگ جو کافر ہیں اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں اور ان میں سے اکثر نہیں سمجھتے۔“ (١٠٣)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ مشرکین کی مذمت ہے جنہوں نے دین میں ایسی چیزیں گھڑ لی تھیں جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا تھا اور وہ چیزیں حرام قرار دے تھیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حلال ٹھہرایا تھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنی فاسد آراء کی بنا پر اپنی ان اصطلاحات کے مطابق کچھ مویشی حرام قرار دے دیئے جو کتاب اللہ کے مخالف تھیں۔ بنا بریں فرمایا : ﴿مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِن بَحِيرَةٍ ﴾ ” نہیں مقرر کیا اللہ نے بحیرہ“( بَحِيرَةٍ) اس اونٹنی کو کہا جاتا تھا جس کے کان پھاڑ دیا کرتے، اس پر سواری کرنے کو حرام کرلیتے اور اس کو مقدس خیال کرتے تھے۔ ﴿وَلَا سَائِبَةٍ ﴾ ” اور نہ سائبہ“ اونٹنی، گائے یا بکری جب سن رسیدہ ہوجاتی تو اسے سائبہ کہا جاتا تھا اور اسے آزاد چھوڑ دیتے تھے، اس پر سواری کی جاتی تھی نہ اس پر بوجھ لادا جاتا تھا اور نہ اس کا گوشت کھایا جاتا تھا۔ بعض لوگ اپنے مال میں سے کچھ نذر مان کر اس کو ” سائبہ“ بنا کر چھوڑ دیتے تھے۔﴿وَلَا حَامٍ ﴾ ” اور نہ حام“ یعنی اونٹ جب ایک خاص حالت کو پہنچ جاتا جو ان کے ہاں معروف تھی تو اس اونٹ پر سواری کی جاتی تھی نہ اس پر سامان لادا جاتا تھا۔ ان تمام چیزوں کو مشرکین نے بغیر کسی دلیل اور برہان کے حرام قرار دے رکھا تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ پر افترا اور بہتان تھا جو ان کی جہالت اور بے عقلی سے صادر ہوا تھا۔ اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَلَـٰكِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ ۖ وَأَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ ﴾ ’’لیکن کافر اللہ پر افترا باندھتے تھے اور ان کے اکثر عقل نہیں رکھتے تھے۔‘‘ ان مذکورہ امور میں کوئی نقلی دلیل تھی نہ عقلی، بایں ہمہ انہیں اپنی آراء بہت پسند تھیں جو ظلم اور جہالت پر مبنی تھیں۔