وَإِذِ اسْتَسْقَىٰ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِب بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ ۖ فَانفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا ۖ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ ۖ كُلُوا وَاشْرَبُوا مِن رِّزْقِ اللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے پانی مانگا تو ہم نے حکم دیا کہ اپنی لاٹھی پتھر پر مارو جس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور ہر گروہ نے اپنا اپنا چشمہ پہچان لیا۔ اللہ تعالیٰ کا رزق کھاؤ پیو اور زمین میں فساد نہ کرنا
یعنی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کے لئے پانی مانگا تاکہ وہ اس پانی کو پینے کے لئے استعمال کرسکیں ﴿ فَقُلْنَا اضْرِب بِّعَصَاكَ الْحَجَر﴾َ ” تو ہم نے کہا : اپنی لاٹھی پتھر پر مار۔“ یہاں (الْحَجَرَ)کے معرفہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یا تو یہ کوئی مخصوص پتھر تھا جسے حضرت موسیٰ علیہ السلام جانتے تھے یا اسم جنس کی بنا پر معرفہ ہے۔ ﴿ فَانْفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَیْنًا﴾ ” پس اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے“ اور بنی اسرائیل کے بھی بارہ قبیلے تھے۔ ﴿قَدْ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَھُمْ﴾ یعنی ہر ایک قبیلے نے اپنی وہ جگہ معلوم کرلی جہاں انہوں نے ان چشموں سے پانی پینا ہے، تاکہ وہ پانی پیتے وقت ایک دوسرے کے مزاحم نہ ہوں، بلکہ وہ بغیر کسی تکدر کے خوش گواری کے ساتھ پانی پئیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿کُلُوْا وَاشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّٰہِ ﴾یعنی وہ رزق جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں بغیر کوشش اور جدوجہد کے عطا کیا ہے اس میں سے کھاؤ پیؤ۔ ﴿وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ﴾ یعنی فساد پھیلانے کی خاطر زمین کو مت اجاڑو۔