إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَىٰ نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِيسَىٰ وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ ۚ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا
” یقیناً ہم نے آپ کی طرف وحی کی، جیسے ہم نے نوح اور اس کے بعد دوسرے انبیاء کی طرف وحی کی اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اس کی اولاد اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف وحی کی اور ہم نے داؤد کو زبور عطا فرمائی۔ (١٦٣)
اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے اپنے بندے اور رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر اسی طرح عظیم شریعت اور سچی خبریں وحی کی ہیں جس طرح اس نے ان انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام پر وحی کی تھیں۔ اس میں متعدد فوائد ہیں : (١) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نئے اور انوکھے رسول نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی بے شمار رسول بھیجے ہیں اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو انوکھا اور نادر سمجھنا جہالت اور عناد کے سوا کچھ نہیں۔ (٢) اللہ تعالیٰ نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اصول اور عدل کے ضابطے وحی کئے ہیں جس طرح انبیائے سابقین کی طرف وحی فرمائے تھے جن پر عمل کر کے وہ تقویٰ اختیار کرتے تھے۔ وہ ایک دوسرے کی تصدیق اور ایک دوسرے کی موافقت کرتے تھے۔ (٣) محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم انہی انبیاء و رسل کی جنس سے تعلق رکھتے ہیں، لہٰذا آپ کو دیگر انبیاء و رسل کے زمرے میں رکھ کر آپ کا اعتبار کرنا چاہئے۔ آپ کی دعوت وہی ہے جو ان رسولوں کی دعوت تھی، آپ کے اخلاق ان کے اخلاق سے متفق، آپ کی اور ان کی تعلیمات کا مصدر ایک اور آپ کے اور ان سب کے مقاصد یکساں ہیں۔۔۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مجہول اور کذاب لوگوں اور ظالم بادشاہوں کے ساتھ ذکر نہیں کیا۔ (٤) (قرآن مجید میں) ان انبیاء و رسل کے تذکرے اور ان کی تعداد بیان کرنے میں ان کی مدح و ثناء اور تعریف و تعظیم ہے اور ان کے احوال کی اس طرح تشریح ہے جس سے ان کے بارے میں مومن کے ایمان اور محبت میں اضافہ ہوتا ہے، ان کے طریقے اور سنت کو اپنانے کا جذبہ بڑھتا ہے اور ا ن کے حقوق کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے ان ارشادات کا مصداق ہے۔ ﴿سَلَامٌ عَلَىٰ نُوحٍ فِي الْعَالَمِينَ﴾ (الصافات :37؍79)﴿ سَلَامٌ عَلَى إِبْرَاهِيمَ ﴾(الصافات :37؍109 ﴿ سَلَامٌ عَلَى مُوسَى وَهَارُونَ ﴾ (الصافات :38؍120)﴿ سَلَامٌ عَلَى إِلْ يَاسِينَ ﴾ (الصافات :37؍130) ﴿ إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ﴾ (الصافات :37؍131) پس بھلائی اور احسان کرنے والے ہر شخص کو اس کے احسان کے مطابق مخلوق کے اندر ثنائے حسن نصیب ہوتی ہے۔ تمام انبیاء و رسل خصوصاً وہ انبیائے کرام جن کے اسمائے گرامی گزشتہ سطور میں ذکر کئے گئے ہیں احسان کے بلند ترین مرتبہ پر فائز ہیں۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے وحی میں ان کے اشتراک کا ذکر فرمایا، وہاں اس نے بعض انبیاء کے اختصاص کا بھی ذکر کیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ اس نے جناب داؤد کو زبور عطا کی اور یہ وہ معروف اور لکھی ہوئی کتاب ہے جو داؤد علیہ الصلوۃ و السلام کے فضل و شرف کی بنا پر ان کے لئے مخصوص کی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کلام فرمایا۔ یعنی بغیر کسی واسطہ کے بالمشافہ کلام فرمایا۔ حتیٰ کہ یہ بات تمام دنیا میں مشہور ہوگئی اور جناب موسیٰ علیہ السلام کو ” کلیم الرحمٰن“ کہا جانے لگا۔ نیز یہ بھی ذکر فرمایا کہ ان انبیاء و رسل میں سے بعض کا قصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بیان فرمایا اور بعض انبیاء کا قصہ بیان نہیں فرمایا اور یہ امر انبیائے کرام کی کثرت پر دلالت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان لوگوں کے لئے دنیاوی اور آخری سعادت کی خوشخبری سنانے والے بنا کر مبعوث فرمایا جو ان کی اطاعت کرتے ہیں اور ان لوگوں کے لئے دونوں جہانوں کی بدبختی سے ڈرانے والے بنا کر بھیجا جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور ان رسولوں کی مخالفت کرتے ہیں۔۔۔ تاکہ انبیاء و رسل مبعوث کرنے کے بعد لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ پر کوئی حجت باقی نہ رہے اور وہ یہ نہ کہیں کہ ﴿مَا جَاءنَا مِن بَشِيرٍ وَلاَ نَذِيرٍ فَقَدْ جَاءكُم بَشِيرٌ وَنَذِيرٌ ﴾(المائدہ :5؍19) ” ہمارے پاس کوئی خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا نہیں آیا۔ پس تحقیق تمہارے پاس خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا آگیا ہے۔ “ اللہ تبارک و تعالیٰ کے مسلسل رسول بھیجنے کے بعد لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ پر کوئی حجت باقی نہ رہی۔ یہ رسول لوگوں کے سامنے ان کا دین بیان کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی رضا اور ناراضی کے اسباب اور جنت و جہنم کے راستے واضح کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ تب جو کوئی ان انبیاء و رسل کا انکار کرتا ہے، تو وہ اپنے نفس کے سوا کسی کو ملامت نہ کرے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کے کامل غلبہ اور کامل حکمت کی دلیل ہے کہ اس نے لوگوں کی طرف رسول مبعوث فرمائے اور ان پر کتابیں نازل فرمائیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان بھی ہے، کیونکہ لوگ انبیاء و رسل کی بعثت کے سخت ضرورت مند تھے تب اللہ تعالیٰ نے ان کے اس اضطرار کا ازالہ فرمایا۔ پس وہی حمد و ثناء اور شکر کا مستحق ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ اس نے جس طرح اپنے رسول بھیج کر ہم پر اپنی نعمت کی ابتدا کی، اسی طرح وہ ہمیں ان کے راستے پر گامزن ہونے کی توفیق سے نواز کر اس نعمت کا اتمام کرے، بے شک وہ جواد اور کریم ہے۔