مُّذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذَٰلِكَ لَا إِلَىٰ هَٰؤُلَاءِ وَلَا إِلَىٰ هَٰؤُلَاءِ ۚ وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِيلًا
وہ کفار اور مسلمانوں کے درمیان لٹکے ہوتے ہیں نہ پورے ان کی طرف اور نہ صحیح طور پر ان کی طرف۔ جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کر دے تو تم اس کے لیے کوئی راہ نہیں پاسکتے
﴿مُّذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذٰلِكَ لَا إِلَىٰ هَـٰؤُلَاءِ وَلَا إِلَىٰ هَـٰؤُلَاءِ﴾” بیچ میں پڑے لٹک رہے ہیں۔ نہ ان کی طرف (ہوتے ہیں) نہ ان کی طرف۔“ یعنی وہ اہل ایمان اور کفار کے گروہوں کے درمیان متذبذب اور متردد ہیں۔ ظاہری اور باطنی طور پر اہل ایمان کے ساتھ ہیں نہ کفار کے ساتھ۔ انہوں نے اپنا باطن کفار کو عطا کر رکھا ہے اور ظاہر مسلمانوں کے ساتھ ہے اور یہ سب سے بڑی گمراہی ہے، اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَن يُضْلِلِ اللّٰهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِيلًا﴾اور جس کو اللہ بھٹکائے تو آپ اس کے لئے کبھی بھی راستہ نہیں پائیں گے۔“ یعنی آپ اس کی ہدایت کا کوئی راستہ اور اس کو گمراہی سے بچانے کے لئے کوئی وسیلہ نہیں پائیں گے کیونکہ اس پر رحمت کا دروازہ بند ہوچکا ہے اور اس کی رحمت کی بجائے اللہ تعالیٰ کا غضب و انتقام اس کا نصیب بن چکا ہے۔ یہ تمام مذموم اوصاف اشارتاً دلالت کرتے ہیں کہ اہل ایمان ان کی متضاد صفات سے متصف ہیں اور وہ ہیں ظاہر و باطن میں صدق اور اخلاص۔ انہیں اپنی نمازوں، عبادات اور کثرت ذکر الٰہی میں جو نشاط حاصل ہوتا ہے وہ سب معلوم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت عطا کی اور صراط مستقیم پر گامزن کیا۔ پس ایک عقل مند شخص کو چاہئے کہ وہ ان ودامور پر غور کرے اور جو اس کے لئے بہتر ہے اسے اختیار کرلے۔ واللہ المستعان۔