إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلًا
بے شک منافق اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دیتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ انہیں فریب میں مبتلا کرتا ہے اور جب نماز میں کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی غفلت کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں محض لوگوں کو دکھلانے کے لیے اور اللہ تعالیٰ کو بہت کم یاد کرتے ہیں
اللہ تبارک و تعالیٰ منافقین کی قبیح صفات اور مکروہ علامات کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے نیز یہ کہ ان کا طریق اللہ کو فریب دینا ہے یعنی بظاہر وہ مومن ہیں مگر باطن میں کافر ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دے دیں گے اور اللہ تعالیٰ کو ان کے کرتوتوں کا علم نہیں اور وہ ان کا دھوکا اپنے بندوں پر ظاہر نہیں کرے گا حالانکہ اللہ تعالیٰ خود ان کو دھوکے میں مبتلا کر رہا ہے۔ ان کا مجرد یہ حال ہونا اور اس راستے پر گامزن رہنا ان کا اپنے آپ کو دھوکے میں مبتلا کرنا ہے بھلا اس سے بڑا دھوکہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص پوری دوڑ دھوپ کرے مگر اس کا ماحصل رسوائی، ذلت اور محرومی کے سوا کچھ نہ ہو۔ یہ چیز اس شخص کی کم عقلی پر دلالت کرتی ہے کہ وہ معصیت کا ارتکاب کرتا ہے اور اسے نیکی خیال کرتا ہے اور اسے بڑی عقل مندی اور چال بازی سمجھتا ہے۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ جہالت اور خذلان اسے کس انجام پر پہنچائیں گے۔ قیامت کے روز ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا دھوکہ یہ ہوگا۔ جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے : ﴿یَوْمَ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا انْظُرُوْنَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُّوْرِکُمْ٠ۚ قِیْلَ ارْجِعُوْا وَرَاۗءَکُمْ فَالْتَمِسُوْا نُوْرًا٠ۭ فَضُرِبَ بَیْنَہُمْ بِسُوْرٍ لَّہٗ بَابٌ٠ۭ بَاطِنُہٗ فِیْہِ الرَّحْمَۃُ وَظَاہِرُہٗ مِنْ قِبَلِہِ الْعَذَابُ١٣ۭ یُنَادُوْنَہُمْ اَلَمْ نَکُنْ مَّعَکُمْ﴾ (سورہ حدید آیت57؍ 13-14) ” اس روز منافق مرد اور منافق عورتیں اہل ایمان سے کہیں گے ٹھہرو ! ہم بھی تمہارے نور سے روشنی حاصل کرلیں ! ان سے کہا جائے گا پیچھے لوٹ جاؤ اور وہاں روشنی تلاش کرو، پھر ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا جس کے اندروین جانب رحمت ہوگی اور بیروین جانب عذاب، منافق پکارپکار کر اہل ایمان سے کہیں گے کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟“ ان منافقین کی صفات یہ ہیں۔ ﴿وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ﴾” جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔“ نماز جو کہ سب سے بڑی عملی نیکی ہے۔ اگر وہ نماز کے لئے کھڑے ہو ہی جاتے ہیں﴿قَامُوا كُسَالَىٰ﴾ ” تو سست ہو کر۔“ یعنی بوجھل پن کے ساتھ تنگ دل اور زچ ہو کر اٹھتے ہیں۔ ” کاہلی“ کا اطلاق ان پر تب ہوتا ہے جب ان کے دلوں میں رغبت کا فقدان ہو، اگر ان کے دل اللہ تعالیٰ اور اس کے ثواب کی طرف رغبت سے خالی نہ ہوتے اور ان میں ایمان معدوم نہ ہوتا تو ان سے سستی اور کسل مندی کبھی صادر نہ ہوتی۔ ﴿يُرَاءُونَ النَّاسَ﴾ ” لوگوں کے دکھانے کو۔“ یعنی یہ ان کی فطرت ہے اور یہی ان کے اعمال کا مصدر ہے۔ ان کے اعمال لوگوں کے دکھاوے کے لئے ہیں ان کا مقصد محض ریا کاری اور لوگوں سے تعظیم اور احترام حاصل کرنا ہے۔ اپنے اعمال کو اللہ کے لئے خالص نہیں کرتے۔ لہٰذا فرمایا : ﴿وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّـهَ إِلَّا قَلِيلًا﴾ ” اور اللہ کا ذکر نہیں کرتے مگر بہت کم۔“ کیونکہ ان کے دل ریا سے لبریز ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کا التزام صرف مومن ہی کرسکتا ہے، کیونکہ اس کا دل اللہ تعالیٰ کی محبت اور عظمت سے لبریز ہے۔