سورة القلم - آیت 1

ن ۚ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

نٓ۔ قسم ہے قلم کی اور اس چیز کی جسے لکھنے والے لکھ رہے ہیں

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک وتعالیٰ” قلم“ کی قسم کھاتا ہے۔ یہ اسم جنس ہے جو ان تمام اقلام کو شامل ہے جن کے ذریعے سے مختلف علوم کو علوم کو لکھا جاتا ہے اور جن کے ذریعے سے منثور اور منظوم کلام کو احاطہ تحریر میں لایا جاتا ہے اور یہ اس حقیقت پر قسم ہے کہ قلم اور جو اس کے ذریعے سے مختلف انواع کا کلام لکھا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، جو اس امر کی مستحق ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ان عیوب کے بارے میں براءت پر اس کی قسم کھائی جائے جو آپ کے دشمن آپ کی طرف منسوب کرتے ہیں ،یعنی جنون وغیرہ۔ پس آپ کے رب کی نعمت اور احسان سے ان عیوب کی آپ نفی کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عقل کامل، عمدہ رائے اور فصاحت وبلاغت سے لبریز کلام فیصل سے سرفراز فرمایا ہے جو بہترین کلام ہے جسے قلم لکھتے ہیں اور مخلوقات اسے قلم بند کرتی ہیں اور دنیا کے اندر یہی سعادت ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کی اخروی سعادت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :﴿ إِنَّ لَكَ لَأَجْرًا﴾ ” آپ کے لیے بہت بڑا اجر ہے ۔ “ جیسا کہ نکرہ سے مسفادہ ہوتا ہے ﴿ غَيْرَ مَمْنُونٍ﴾ یعنی ایسا اجر جو کبھی منقطع نہیں ہوگا بلکہ دائمی اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔ اس کا سبب وہ اعمال صالحہ، اخلاق کاملہ اور ہر بھلائی کی طرف وہ راہ نمائی وغیرہ ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہوئی ہے۔ ﴿ وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ ﴾۔ ” اور بے شک آپ بڑے )عمدہ( اخلاق پر ہیں۔“ یعنی آپ اس اخلاق کی بنا پر بلند مرتبہ ہیں اور اپنے اس خلق عظیم کی بنا پر فوقیت رکھتے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو نوازا ہے۔ آپ کے خلق عظیم کا حاصل وہ ہے جس کی تفسیر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس شخص کے سامنے بیان فرمائی تھی جس نے آپ کے اخلاق کے بارے میں ان سے پوچھا تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: )کَانَ خُلُقُہُ الْقُرآنَ)(صحیح مسلم‘صلاۃ المسافرین‘باب جامع صلاۃ الیل ۔۔حدیث 746ومسندأحمد:6؍91)۔ ” آپ کا خلق قرآن ہی ہے۔“ یہ آپ کے لیے اللہ تعالیٰ کے ان ارشادات کی طرح ہے : ﴿ خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ﴾ (الاعراف:7؍199) ” عفو کا رویہ اختیار کیجیے، نیکی کا حکم دیجئے اور جاہلوں سے کنارہ کیجئے۔“ نیز فرمایا :﴿ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰـهِ لِنتَ لَهُمْ ﴾ (آل عمران :3؍159) ” اللہ کی مہربانی سے، آپ ان کے لیے نرم خو واقع ہوئے ہیں۔“ اور فرمایا :﴿ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ﴾ ( التوبۃ :9؍128) ” تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے، تمہاری تکلیف اس پر بہت گراں گزرتی ہے، تمہاری بھلائی کا وہ بہت خواہش مند ہے، اہل ایمان پر بہت شفقت کرنے والا اور ان پر نہایت مہربان ہے۔ “ کتنا صحیح مصداق ہیں یہ آیات کریمہ جو آپ کے مکارم اخلاق سے متصف ہونے پر دلالت کرتی ہیں اور وہ آیات کریمہ جو ہر قسم کے خلق جمیل کی ترغیب دیتی ہیں۔ وہ ان اوصاف میں کامل ترین اور جلیل ترین مقام پر فائز تھے اور ان خصائل میں سے ہر خصلت کی بلند چوٹی پر تھے۔ آپ بہت ہی نرم برتاؤ کرنے والے اور نرم خو تھے، لوگوں کے بہت قریب تھے ،جو کوئی آپ کو دعوت دیتا آپ اس کی دعوت قبول کرتے تھے، جو کوئی آپ سے کسی حاجت کا طلب گار ہوتا آپ اس کی حاجت پوری کرتے تھے بلکہ آپ اس کی دل جوئی کرتے تھے۔ اگر آپ کے اصحاب کو آپ سے کام ہوتا، آپ اس کام پر ان کی موافقت کرتے اور اس بارے میں ان کی بات مانتے بشرطیکہ اس میں کوئی ایسی چیز نہ ہو جس سے بچنے کے لیے کہا گیا ہو۔ اگر کسی امر کا عزم فرماتے تو ان کو نظر انداز کرکے ان پر اپنی رائے نہیں تھوپتے تھے بلکہ ان کے ساتھ مشاورت کرکے ان کی رائے لیتے تھے، ان کے اچھے کام کو قبول کرلیتے اور برائی کرنے والے سے درگزر کرتے تھے، کسی ہم نشین کے ساتھ معاشرت کرتے تو کامل ترین اور بہترین طریقے سے معاشرت کرتے ، آپ کبھی اپنی پیشانی پر بل ڈالتے نہ آپ کبھی کوئی سخت بات کہتے، نہ آپ اس سے منہ موڑتے، نہ آپ اس کی زبان کی لغزش پر گرفت کرتے اور نہ اس کی طرف سے کسی سخت رویے پر مؤاخذہ فرماتے بلکہ اس کے ساتھ انتہائی حسن سلوک سے پیش آتے اور اسے انتہائی حد تک برداشت کرتے۔ جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے محمد مصطفی ٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلندترین مقام پر فائز فرمایا اور آپ کے دشمن آپ کی طرف منسوب کرتے تھے کہ آپ مجنون اور دیوانے ہیں تو فرمایا : ﴿ فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُونَ بِأَييِّكُمُ الْمَفْتُونُ ﴾ ” پس عنقریب آپ دیکھ لیں گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے کہ تم میں سے کون دیوانہ ہے ۔“اور یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ آپ لوگوں میں سب سے زیادہ ہدایت یافتہ، اپنے لیے اور دوسروں کے لیے سب سے زیادہ کامل ہیں، نیز یہ بھی واضح ہوگیا کہ آپ کے دشمن، لوگوں میں سب سے زیادہ گمراہ اور سب سے زیادہ شر پسند ہیں۔ یہی لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کے بندوں کو فتنے میں ڈالا اور ان کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے بھٹکا دیا۔ اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا علم کافی ہے، وہی محاسبہ کرنے والا اور جزا دینے والا ہے۔ اور ﴿ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ﴾ ” وہ اس کو خوب جانتا ہے جو اس کے راستے سے بھٹک گیا اور ان کو بھی خوب جانتا ہے جو سیدھے راستے پر چل رہے ہیں۔“ اس میں گمراہ لوگوں کے لیے تہدید اور ہدایت یافتہ لوگوں کے لیے وعدہ ہے، نیز اس میں اللہ تعالیٰ کی حکمت کا بیان ہے کہ وہ اس شخص کو ہدایت سے نوازتا ہے جو ہدایت کے لائق ہوتا ہے۔