أَمَّنْ هَٰذَا الَّذِي هُوَ جُندٌ لَّكُمْ يَنصُرُكُم مِّن دُونِ الرَّحْمَٰنِ ۚ إِنِ الْكَافِرُونَ إِلَّا فِي غُرُورٍ
بتاؤ تمہارے پاس کون سا لشکر ہے جو الرحمان کے مقابلے میں تمہاری مدد کرسکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ منکرین حق دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں
اللہ تعالیٰ اپنے امر سے دور بھاگنے اور حق سے رو گردانی کرنے والے سرکشوں سے فرماتا ہے: ﴿ أَمَّنْ هـٰذَا الَّذِي هُوَ جُندٌ لَّكُمْ يَنصُرُكُم مِّن دُونِ الرَّحْمَـٰنِ ﴾۔ یعنی جب رحمٰن تمہارے ساتھ کوئی برائی کرنے کا ارادہ کرے تو کون سا تمہارا لشکر اس برائی کو تم سے دور کرسکتا ہے؟ یعنی رحمٰن کے سوا تمہارے دشمنوں کے خلاف کون تمہاری مدد کرسکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی مدد کرنے والا، عزت عطا کرنے والا اور ذلت سے ہم کنار کرنے والا ہے، اور اس کے سوا تمام مخلوق کسی بندے کی مدد کے لیے اکٹھی ہوجائے تو کسی بھی دشمن کے خلاف اسے ذرہ بھر فائدہ نہیں دے سکتی۔ پس کفار کا یہ جان لینے کے بعد کہ رحمٰن کے سوا کوئی ان کی مدد نہیں کرسکتا، اپنے کفر پر جمے رہنا فریب اور حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ ﴿ أَمَّنْ هٰذَا الَّذِي يَرْزُقُكُمْ إِنْ أَمْسَكَ رِزْقَهُ ﴾ یعنی رزق تمام تر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ۔اگر وہ تم سے رزق کو روک لے تو کون تمہارے لیے رزق بھیج سکتا ہے؟ کیونکہ مخلوق تو خود اپنے رزق پر قادر نہیں، دوسروں کو کیسے رزق دے سکتی ہے؟ بندوں کو جو نعمت عطا ہوتی ہے وہ صرف اللہ کی طرف عطا ہوتی ہے ۔پس رزق عطا کرنے والی اور نعمتوں سے بہر ہ ور کرنے والی ہستی ہی اس بات کی مستحق ہے کہ اسی ایک کی عبادت کی جائے۔ مگر کفار ﴿ لَّجُّوا ﴾ جمے ہوئے ہیں ﴿ فِي عُتُوٍّ ﴾ حق کے معاملے میں سختی اور درشتی میں ﴿ وَنُفُورٍ ﴾ ”اور نفرت میں“ یعنی حق سے د ور بھاگتے ہیں ۔