سورة الملك - آیت 1

تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں کائنات کی بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ ﴾ یعنی وہ ہستی بہت عظمت والی اور بہت بلند ہے ، اس کی بھلائی بہت زیادہ اور اس کا احسان عام ہے۔ یہ اس کی عظمت ہے کہ عالم علوی اور عالم سفلی کا اقتدار اسی کے ہاتھ میں ہے ، وہی ہے جس نے اس کو پیدا کیا ہے، وہ جیسے چاہتا ہے احکام دینی اور احکام قدری میں تصرف کرتا ہے جو اس کی حکمت کے تابع ہوتے ہیں ۔اس کی عظمت اور اس کی قدرت کا کمال ہے جس کی بنا پر وہ ہر چیز پر قادر ہے ،اسی قدرت کے ذریعے سے اس نے بڑی بڑی مخلوقات، مثلا : آسمان اور زمین کو وجود بخشا اور آیت ﴿ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ﴾ ” اس نے موت وحیات کو پیدا کیا“ یعنی اس نے اپنے بندوں کے مقدر کیا کہ وہ ان کو زندگی عطا کرے پھر موت سے ہم کنار کرے ﴿ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا﴾ تاکہ وہ آزمائے کہ تم میں سے کون سب سے زیادہ صاحب اخلاص اور کون سب سے زیادہ راہ صواب پر ہے ۔یہ آزمائش اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو پیدا کرکے ان کو اس دنیا میں بھیجا، انہیں یہ بھی بتادیا کہ انہیں عنقریب یہاں سے منتقل کیا جائے گا ، ان کو اوامر ونواہی دیے اور اپنے ان اوامر کی معارض شہوات کے ذریعے سے ان کو آزمایا ۔پس جس کسی نے اللہ تعالیٰ کے اوامر کے سامنے سرتسلیم خم کردیا تو اللہ اسے دنیا وآخرت میں بہترین جزادے گا اور جو کوئی شہوات نفس کی طرف مائل ہوا اور اللہ تعالیٰ کے اوامر کو دور پھینک دیا تو اس کے لیے بدترین سزا ہے۔ ﴿ وَهُوَ الْعَزِيزُ﴾ تمام غلبہ اسی کا ہے جس کے ذریعے سے وہ تمام چیزوں پر غالب ہے اور مخلوقات اس کی مطیع ہے ۔ ﴿ الْغَفُورُ﴾ وہ بدکاروں، کوتاہی کرنے والوں اور گناہ گاروں کو بخش دیتا ہے ، خاص طور پر جب وہ توبہ کرکے اس کی طرف رجوع کریں ، وہ ان کے گناہوں کو بخش دیتا ہے ، خواہ وہ آسمان کے کناروں تک پہنچے ہوئے ہوں ،وہ ان کے عیوب کو چھپاتا ہے، خواہ وہ زمین بھر ہوں۔ ﴿ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا﴾ یعنی اس نے آسمانوں کو ایک ہی طبق نہیں بنایا بلکہ ان کو ایک دوسرے کے اوپر بنایا، ان کو انتہائی خوبصورتی اور مضبوطی کے ساتھ پیدا کیا ﴿ مَّا تَرَىٰ فِي خَلْقِ الرَّحْمَـٰنِ مِن تَفَاوُتٍ﴾ ” تم رحمٰن کی تخلیق میں کوئی بے ربطی نہیں دیکھو گے“ یعنی خلل اور نقص۔ جب نقص کی ہر لحاط سے نفی ہوگئی تو وہ ہر لحاظ سے خوبصورت، کامل اور متناسب بن گئے، یعنی اپنے رنگ میں، اپنی ہیئت میں، اپنی بلندی میں، اپنے سورج، کواکب، ثوابت اور سیارات میں خوبصورت اور متناسب ہیں ۔ چونکہ ان کا کمال معلوم ہے ،اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو بار بار دیکھنے اور ان کو کناروں میں غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔﴿ فَارْجِعِ الْبَصَرَ﴾ عبرت کی نظر سے دیکھنے کے لیے اس پر دوبارہ نگاہ ڈال ﴿ هَلْ تَرَىٰ مِن فُطُورٍ﴾ کیا تجھے کوئی نقص اور خلل نظر آتا ہے؟ ﴿ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ ﴾۔ ”پھر لوٹا تو نگاہ کو دوبارہ باربار۔“ اس سے مراد کثرت تکرار ہے ﴿ يَنقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرٌ﴾” نظر (ہربار) تیرے پاس ناکام اور تھک کرلوٹ آئے گی“ یعنی کوئی خلل اور کوئی نقص دیکھنے سے عاجز آکر واپس لوٹے گی اور خواہ وہ خلل دیکھنے کی بے انتہا خواہش رکھتی ہو، پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے نہایت صراحت کے ساتھ آسمانوں کی خوبصورتی کا ذکر کیا، چنانچہ فرمایا: