سورة البقرة - آیت 41

وَآمِنُوا بِمَا أَنزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ ۖ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَإِيَّايَ فَاتَّقُونِ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور اس پر ایمان لاؤ جو میں نے نازل کی وہ تمہاری کتابوں کی تصدیق کرتی اور تم اس کے پہلے منکرنہ بنو اور میری آیات کو تھوڑی قیمت پر نہ فروخت کرو اور صرف مجھ ہی سے ڈرو

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک خاص امر کا حکم دیا ہے جس کے بغیر ان کا ایمان مکمل ہوتا ہے نہ اس کے بغیر ایمان صحیح۔ فرمایا ﴿ وَاٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلْتُ﴾” اور ایمان لاؤ اس پر جو میں نے نازل کیا۔“ اس سے مراد قرآن مجید ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائیں اور ان کی اتباع کریں اور آپ پر ایمان لانے اور اتباع کرنے کا حکم اس کتاب پر بھی ایمان لانے کو مستلزم ہے جو آپ پر نازل کی گئی۔ پھر اس داعی کا ذکر کیا جو انہیں ایمان کی طرف بلاتا ہے۔ فرمایا : ﴿مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ﴾” تصدیق کرنے والا ہے ان چیزوں کی جو تمہارے پاس ہیں‘‘ یعنی یہ (قرآن) ان کتابوں کی موافقت کرتا ہے جو تمہارے پاس ہیں یہ ان کے مخالف ہے نہ مناقض۔ پس جب یہ قرآن ان کتابوں کی موافقت کرتا ہے جو تمہارے پاس ہیں اور ان کی مخالفت نہیں کرتا تو پھر تمہارے اس پر ایمان لانے سے کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہی چیز لے کر آئے ہیں جو پہلے رسول لائے تھے، لہٰذا تم سب سے زیادہ مستحق ہو کہ تم اس پر ایمان لاؤ اور اس کی تصدیق کرو کیونکہ تم اہل کتاب اور اہل علم ہو۔ نیز اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ ﴾میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اگر تم اس پر ایمان نہیں لاؤ گے تو یہ تکذیب خود تمہاری طرف لوٹے گی یعنی تم خود بھی ان کتابوں کے جھٹلانے والے ٹھہرو گے جو تمہارے پاس ہیں۔ اس لئے کہ یہ پیغمبر بھی وہی چیز لے کر آیا ہے جو حضرت موسیٰ، عیسیٰ اور دیگر انبیا علیہ السلام لے کر آئے، لہٰذا تمہارا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کرنا درحقیقت ان کتابوں کی تکذیب ہے جو تمہارے پاس ہیں۔ نیز اس لئے بھی کہ ان کتابوں میں، جو تمہارے پاس ہیں اس نبی کے اوصاف اور نشانیاں بیان ہوئی ہیں اور اس کی بشارت دی گئی جو یہ قرآن لے کر آیا ہے۔ اس لئے اگر تم اس پر ایمان نہیں لاتے تو تم نے گویا ان کتابوں کے بعض احکام کو جھٹلایا جو تمہارے پاس ہیں۔ پس جو کوئی اس کتاب کے کچھ حصے کو جھٹلاتا ہے جو اس کی طرف نازل کی گئی ہے تو وہ تمام کتابوں کو جھٹلاتا ہے۔ جیسے کوئی شخص کسی ایک رسول کا انکار کرتا ہے تو دراصل وہ تمام رسولوں کا انکار کرتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو اس رسول پر ایمان لانے کا حکم دیا، تو ان کو ایمان کی ضد یعنی اس کے ساتھ کفر سے روکا اور اس سے ڈرایا۔ فرمایا : ﴿وَلَا تَکُوْنُوْٓا اَوَّلَ کَافِرٍۢ بِہٖ ﴾یعنی رسول اللہ اور قرآن کی تکذیب کرنے والے پہلے لوگ نہ بنو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ اَوَّلَ کَافِرٍۢ بِہٖ ﴾” اس کے اولین انکار کرنے والے“ (وَلَاتَكْفُرُوا بِهٖ) ” اس کا انکار نہ کرو“ سے زیادہ بلیغ ہے کیونکہ جب وہ اولین کفر کرنے والے ہوں گے تو گویا وہ کفر کی طرف بہت تیزی سے لپکے ہیں اس رویہ کے برعکس جو ان کے لئے زیادہ مناسب تھا۔ ان کے اپنے کفر اور انکار کا گناہ تو ان کے ذمہ ہے ہی، بعد میں آنے والے ان لوگوں کا گناہ بھی ان کے کندھوں پر ہے جنہوں نے ان کی پیروی کی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس مانع کا ذکر کیا جو ان کو ایمان لانے سے روکتا ہے اور وہ ہے دنیا کے ادنیٰ فوائد کو ابدی سعادت پر ترجیح دینا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَـمَنًا قَلِیْلًا﴾ ” میری آیات (میں تحریف کر کے ان) کے عوض حقیر معاوضہ مت لو“ اس سے مراد وہ دنیاوی مناصب اور کھانے پینے کی اشیاء ہیں جن کے بارے میں وہ اس وہم میں پڑے ہوئے ہیں کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے تو وہ ان چیزوں سے محروم ہوجائیں گے۔ پس انہوں نے ان ادنیٰ چیزوں کو آیات الٰہی کے بدلے خرید لیا اور ادنیٰ چیزوں کو آیات الٰہی پر ترجیح دی۔ ﴿ وَاِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ﴾” اور مجھ ہی سے ڈرو“ اور میرے سوا کسی سے نہ ڈرو۔ کیونکہ جب تم صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرو گے تو یہ چیز تم میں تقویٰ اور تھوڑی سی قیمت کے مقابلے میں آیات الٰہی پر ایمان کو مقدم رکھنے کی موجب ہوگی۔ جیسے جب تم آیات الٰہی کے بدلے تھوڑی سی قیمت کو پسند کرلیتے ہو تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ تمہارے دلوں سے تقویٰ کوچ کر گیا ہے۔