سورة الحجرات - آیت 11

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰ أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَىٰ أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۖ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ۖ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ ۚ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ! نہ مرد دوسروں مردوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو، ایمان لانے کے بعد نافرمانی کرنا بری بات ہے۔ جو لوگ اس روش سے باز نہیں آئیں گے وہ ظالم ہیں

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ بھی مومنون کے باہمی حقوق میں شمار ہوتا ہے کہ ﴿ لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ ﴾ ” کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے۔“ یعنی کسی قسم کی گفتگو اور قول و فعل کے ذریعے سے تمسخر نہ اڑائے جو مسلمان بھائی کی تحقیر پر دلالت کرتے ہوں۔ بے شک یہ تمسخر حرام ہے اور کسی طرح جائز نہیں، نیز یہ چیز تمسخر اڑانے والے کی خود پسندی پر دلیل ہے۔ ہوسکتا ہے جس کا تمسخر اڑایا جارہا ہے وہ تمسخر اڑانے والے سے بہتر ہو اور غالب طور پر یہی ہوتا ہے کیونکہ تمسخر صرف اسی شخص سے صادر ہوتا ہے جس کا قلب اخلاق بد سے لبریز ہو، جو ہر قسم کے اخلاق مذمومہ سے آراستہ اور اخلاق کریمہ سے بالکل خالی ہو۔ بنا بریں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” کسی شخص کے لئے اتنی ہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے بھائی کو حقیر جانے۔ “ [صحیح مسلم، البروالصلة، باب تحریم ظلم المسلم ......حدیث:2564] پھر فرمایا : ﴿ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ ﴾ یعنی تم میں سے کوئی ایک دوسرے کی عیب چینی نہ کرے۔ (اَللَّمْزُ)قول کے ذریعے سے عیب چینی کرنا (اَلْھَمْزُ) فعل کے ذریعے سے عیب چینی کرنا۔ یہ دونوں امور ممنوع اور حرام ہیں جن پر جہنم کی آگ کی وعید سنائی گئی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ ﴾ (الھمزۃ: 104؍1) ” ہلاکت ہے ہر طعن آمیز اشارے کرنے والے عیب جو کے لئے۔“ مسلمان بھائی کو مانند ہوں، نیز جب وہ کسی دوسرے کی عیب چینی کرے تو یہ چیز اس بات کی موجب ہوگی کہ دوسرا اس کی عیب چینی کرے، لہٰذا وہی اس عیب چینی کا سبب بنے گا۔ ﴿ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ﴾ یعنی تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کسی ایسے لقب سے ملقب نہ کرے جس سے پکارا جانا وہ ناپسند کرتا ہے اور یہی (تنَاَبُزْ) ” ایک دوسرے کو برالقب دینا“ ہے۔ رہے غیر مذموم القاب، تو وہ اس حکم میں داخل نہیں ہیں۔ ﴿ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ ﴾ ” ایمان لانے کے بعد برانام رکھنا گناہ ہے۔“ یعنی کتنی بری ہے وہ چیز جو تم نے ایمان اور شریعت پر عمل کے بدلے حاصل کی ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کے اوامرو نواہی سے اعراض کے ذریعے سے فسق و عصیان کے نام کی مقتضی ہے جو کہ تنابزبالا لقاب ہے۔ ﴿ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴾ ” اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں۔“ اور یہی چیز بندے پر واجب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور اپنے مسلمان بھائی سے اس کے حق کو حلال کرا کے، اس کے لئے استغفار کرکے، اور اس کی جو مذمت کی گئی ہے اس کے مقابلے میں اس کی مدح وستائش کرکے اس کا حق ادا کرے ﴿ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴾ ” اور جس نے توبہ نہیں کی، تو وہی لوگ ظالم ہیں۔،، لوگوں کی دو اقسام ہیں : )1( اپنی جان پر ظلم کرنے والا وہ شخص جو توبہ نہیں کرتا۔ )2( توبہ کرکے فوزوفلاح سے بہرہ مند ہونے والا۔ ان دو اقسام کے سوا اور کوئی قسم نہیں۔