وَتَرَىٰ كُلَّ أُمَّةٍ جَاثِيَةً ۚ كُلُّ أُمَّةٍ تُدْعَىٰ إِلَىٰ كِتَابِهَا الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
اس وقت تم ہر امت کو گھٹنوں کے بل گرا ہوا دیکھو گے ہر امت کو پکارا جائے گا کہ آئے اور اپنا نامہ اعمال دیکھے، ان سے کہا جائے گا آج تم کو تمہارے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا جو تم کیا کرتے تھے
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے قیامت کے دن کی شدت اور اس کی ہولناکی کا ذکر فرمایا تاکہ لوگوں کو اس سے ڈرائے اور لوگ اس کے لئے تیاری کریں، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَتَرَىٰ﴾ اے اس دن کو دیکھنے والے ! تو دیکھے گا کہ ﴿كُلَّ أُمَّةٍ جَاثِيَةً ﴾ ہر امت خوف اور دہشت سے گھٹنوں کے بل گری ہوئی مالک رحمان کے فیصلے کی منتظر ہے۔ ﴿كُلُّ أُمَّةٍ تُدْعَىٰ إِلَىٰ كِتَابِهَا ﴾ ” ہر گروہ کو اس کے اعمال نامے کی طرف بلایا جائے گا۔“ یعنی ہر امت کو اس کے نبی کی شریعت کی طرف بلایا جائے گا جسے لے کر وہ اللہ کی طرف سے مبعوث ہوا تھا کہ آیا انہوں نے اس شریعت کو قائم کیا تھا کہ ان کو ثواب اور نجات حاصل ہو یا انہوں نے اسے ضائع کردیا، تب ان کو خسارہ حاصل ہو؟ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت کو شریعت موسی، حضرت عیسیٰ کی امت کو شریعت عیسیٰ اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو شریعت محمدی کی طرف بلایا جائے گا۔ اسی طرح دیگر تمام امتوں کو ان کی اپنی اپنی شریعت کی طرف بلایا جائے گا جس کے وہ مکلف تھے۔ آیت کریمہ سے ایک تو اسی معنی کا احتمال ہے اور یہ معنی فی نفسہ صحیح ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ اس آیت کریمہ میں ایک اور معنی کا احتمال بھی ہے کہ اللہ کے ارشاد : ﴿ كُلُّ أُمَّةٍ تُدْعَىٰ إِلَىٰ كِتَابِهَا﴾ سے مراد یہ ہو کہ ہر امت کو اس کے نامہ اعمال اور خیر و شر کی طرف سے جو ان کے نامہ اعمال میں درج کیا گیا تھا، بلایا جائے گا اور ہر شخص کو اس کے عمل کی جزا و سزا دی جائے گی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ﴾(الجاثیة:45؍15) ” جو کوئی نیک عمل کرے گا تو اپنے ہی لئے کرے گا اور جو کوئی برائی کا ارتکاب کرے گا تو اس کا وبال بھی اسی پر پڑے گا۔“ یہ احتمال بھی موجود ہے کہ آیت کریمہ سے دونوں معنی مراد ہوں اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد اس پر دلیل ہے :