وَآتَيْنَاهُم بَيِّنَاتٍ مِّنَ الْأَمْرِ ۖ فَمَا اخْتَلَفُوا إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِي بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
اور دین کے بارے میں انہیں واضح ہدایات دیں پھر جو اختلاف ان کے درمیان رونما ہوا وہ ( ناواقفیت کی وجہ سے نہیں بلکہ) علم آجانے کے بعد ہوا اور اس بنا پر ہوا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرتے تھے اللہ قیامت کے دن ان معاملات کا جن میں وہ اختلاف کرتے رہے فیصلہ فرما دے گا
نیز وہ فضائل جن کی بنا پر بنی اسرائیل کو فوقیت حاصل تھی، مثلاً: کتاب کا عطا کیا جانا، حکومت اور نبوت وغیرہ جیسے دیگر اوصاف تو وہ اس امت کو بھی حاصل ہیں اس کے علاوہ اس امت کے بہت سے فضائل ان پر مستزاد ہیں۔ پھر بنی اسرائیل کی شریعت امت محمدیہ کی شریعت کا ایک جز ہے، یہ کتاب عظیم گزشتہ تمام کتابوں پر نگہبان ہے اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گزشتہ تمام رسولوں کی تصدیق کرنے والے ہیں۔ ﴿وَآتَيْنَاهُم﴾ اور ہم نے بنی اسرائیل کو عطا کیے ﴿ بَيِّنَاتٍ ﴾ ” دلائل“ جو حق کو باطل سے واضح کرتے ہیں ﴿مِّنَ الْأَمْرِ﴾ یعنی امر قدری سے جو اللہ تعالیٰ نے ان تک پہنچایا ہے۔ یہ آیات وہ معجزات ہیں جن کا انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے سے مشاہدہ کیا، یہ ان سے تقاضا کرتی ہیں کہ وہ بہترین طریقے سے ان کو قائم رکھیں، حق پر مجتمع رہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے واضح کیا ہے مگر انہوں نے اس کے برعکس حق کے ساتھ اس سے متضاد معاملہ کیا جو ان پر واجب تھا۔ پس جس معاملے میں ان کو مجتمع رہنے کا حکم دیا گیا تھا اس میں انہوں نے اختلاف کیا۔ اس لئے فرمایا : ﴿فَمَا اخْتَلَفُوا إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ ﴾ ” پس انہوں نے جو اختلاف کیا تو علم آجانے کے بعد )آپس کی ضد سے( کیا۔“ یعنی وہ علم جو عدم اختلاف کا موجب تھا صرف ایک دوسرے پر ظلم اور زیادتی نے انہیں اس اختلاف پر آمادہ کیا۔ ﴿إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِي بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ﴾ ” جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے تھے قیامت کے دن آپ کا رب ان کے درمیان فیصلہ کرے گا۔“ پس وہ حق شعاروں کو ان لوگوں سے علیحدہ کر دے گا جنہوں نے باطل کو اختیار کیا اور جن کو خواہش نفس نے اختلاف پر آمادہ کیا۔