وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ
کسی بشر کا یہ مقام نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے روبرو بات کرے اس کی بات یا تو وحی کے ذریعے ہوتی ہے یا پردے کے پیچھے سے یا پھر وہ فرشتہ بھیجتا ہے اور وہ اللہ کے حکم سے جو کچھ ” اللہ“ چاہتا ہے وحی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بلند وبالا اور حکیم ہے۔
چونکہ اللہ تعالیٰ کے رسولوں کی تکذیب اور اللہ تعالیٰ کا انکار کرنے والے تکبر اور سرکشی کی بنا پر کہتے تھے : ﴿لَوْلَا يُكَلِّمُنَا اللّٰـهُ أَوْ تَأْتِينَا آيَةٌ﴾ (البقرۃ: 2؍118) ” ہمارے ساتھ اللہ کلام کیوں نہیں کرتا یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی؟“ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کے ذریعے سے ان کا رد کیا اور واضح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمام جہانوں میں سے صرف اپنے خاص بندوں، یعنی رسولوں سے کلام کرتا ہے اور وہ بھی ذیل کی صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں۔ (1) یا تو وہ ان کے ساتھ وحی کے ذریعے سے کلام کرتا ہے اور وہ اس طرح کہ فرشتہ بھیجے بغیر اور بالمشافہ مخاطب ہوئے بغیر اللہ تعالیٰ اپنے رسول کے قلب پر وحی کا القا کرتا ہے۔ (2) ﴿أَوْ ﴾ یا اس کے ساتھ بالمشافہ کلام کرتا ہے مگر ﴿ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ﴾ پردے کے پیچھے سے، جیسا کہ حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام کو شرف کلام حاصل ہوا۔ (3) ﴿ أَوْ ﴾ یا اللہ تعالیٰ فرشتے کے توسط سے کلام کرتا ہے پس ﴿ يُرْسِلَ رَسُولًا ﴾ ” وہ کسی پیغام رساں کو بھیجتا ہے۔ ” مثلاً: حضرت جبرئیل علیہ لاسلام کو یا فرشتوں میں سے کسی دوسرے فرشتے کو ﴿ فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ ﴾ اور وہ فرشتہ مجرد اپنی خواہش سے نہیں بلکہ اپنے رب کے حکم سے وحی القا کرتا ہے۔ ﴿ إِنَّهُ ﴾ ” بے شک وہ“ اللہ تعالیٰ اپنے اوصاف میں بہت بلند اور افعال میں بہت عظیم ہے، وہ ہر چیز پر غالب ہے اور تمام مخلوق اس کی مطیع ہے۔ ﴿ حَكِيمٌ ﴾ وہ تمام مخلوقات اور شرائع میں سے ہر چیز کو اس کے لائق مقام پر رکھنے میں حکمت والا ہے۔