فَإِنْ أَعْرَضُوا فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا ۖ إِنْ عَلَيْكَ إِلَّا الْبَلَاغُ ۗ وَإِنَّا إِذَا أَذَقْنَا الْإِنسَانَ مِنَّا رَحْمَةً فَرِحَ بِهَا ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ فَإِنَّ الْإِنسَانَ كَفُورٌ
اب بھی یہ لوگ منہ موڑتے ہیں تو اے نبی ہم نے تم کو ان پر نگران بنا کر نہیں بھیجا ہے آپ پر تو حق بات پہنچانے کی ذمہ داری ہے۔ انسان کو جب ہم اپنی رحمت کا مزا چکھاتے ہیں تو اس پر پھول جاتا ہے۔ اگر اس کے اپنے ہاتھوں کا کیا دھرا کسی مصیبت کی شکل میں اس پر الٹ پڑتا ہے تو وہ بہت ناشکرا بن جاتا ہے
﴿فَإِنْ أَعْرَضُوا ﴾ بیان کامل کے بعد اگر یہ لوگ اس چیز سے منہ موڑیں جو آپ نے پیش کی ﴿فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا﴾ ” تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔“ کہ آپ ان کے اعمال کی نگرانی کریں اور آپ سے ان کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے۔ ﴿إِنْ عَلَيْكَ إِلَّا الْبَلَاغُ﴾ ” آپ کے ذمے صرف پہنچا دینا ہے۔“ جب آپ نے اپنی ذمہ داری کو پورا کردیا تو اللہ تعالیٰ پر آپ کا اجرواجب ٹھہرا، خواہ وہ آپ کی دعوت کو قبول کریں یا روگردانی کریں، ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہے جس نے ان کے چھوٹے بڑے اور ظاہری، باطنی اعمال کو محفوظ کر رکھا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کی حالت بیان کی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت کا مزا چکھاتا ہے، یعنی اسے جسمانی صحت، رزق کی فراوانی اور عزت و جاہ عطا کرتا ہے تو ﴿فَرِحَ بِهَا﴾ ” وہ اس سے خوش ہوجاتا ہے۔“ یعنی وہ اس طرح خوش ہوتا ہے کہ اس کی خوشی انہی چیزوں پر مرتکز ہو کر رہ جاتی ہے، اس سے آگے نہیں بڑھتی۔ اس کے اس رویئے سے ان چیزوں پر اس کی طمانیت اور منعم حقیقی سے روگردانی لازم آتی ہے۔ ﴿وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ﴾ ” اگر انہیں کوئی برائی پہنچتی ہے۔“ یعنی کوئی مرض یا فقر و غیرہ لاحق ہوتا ہے ﴿بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ فَإِنَّ الْإِنسَانَ كَفُورٌ﴾ ” ان اعمال کے سبب جوا نہوں نے کئے تو انسان بہت ہی ناشکرا ہے۔“ یعنی اس کی فطرت میں سابقہ نعمت کی ناشکری اور اسے جو تکلیف پہنچتی ہے اس پر اللہ تعالیٰ سے ناراضی رچی بسی ہوئی ہے۔