وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّهِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبِّي عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ
تمہارے درمیان جو بھی اختلاف ہے اس کا فیصلہ اللہ ہی کرے گا، وہی ” اللہ“ میرا رب ہے اسی پر میں بھروسہ کرتا اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں
﴿ وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ ﴾ ” اور جن باتوں میں تم آپس میں اختلاف رکھتے ہو۔“ یعنی اپنے دین کے اصول و فروع میں اگر تم ایک دوسرے سے متفق نہ ہو۔ ﴿ فَحُكْمُهُ إِلَى اللّٰـهِ ﴾ تو اسے اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کی طرف لوٹایا جائے وہ دونوں جو فیصلہ کریں وہی حق ہے اور جو ان دونوں کے خلاف ہو وہ باطل ہے۔ ﴿ ذَٰلِكُمُ اللّٰـهُ رَبِّي ﴾’’یہی اللہ میرا رب ہے۔“ جس طرح اللہ تعالیٰ کائنات کا رب، خالق، رازق اور مدبر ہے، اسی طرح وہ اپنے بندوں کے درمیان ان کے تمام امور میں اپنی شریعت کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔ آیت کریمہ کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ کسی امر پر اتفاق امت حجت قطعی ہے کیونکہ جن امور میں ہمارے درمیان اختلاف نہ ہو اسے اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف لوٹانے کا حکم نہیں دیا۔ تب معلوم ہوا کہ جس چیز پر ہم اتفاق کریں تو امت کا اتفاق اس کے حق ہونے کی دلیل کے لئے کافی ہے کیونکہ امت مجموعی طور پر معصوم عن الخطا ہے، اس لئے یہ لازمی امر ہے کہ کسی مسئلہ پر امت کا اتفاق کتاب و سنت کے موافق ہو۔ ﴿ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ﴾ ” میں نے اسی پر بھروسا کیا۔“ جلب منفعت، دفع مضرت اور اپنی حاجت کے پورا ہونے کے بارے میں پورے وثوق کے ساتھ اسی پر اعتماد کرتا ہوں ﴿ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ ﴾ اور میں اپنے دل و جان سے اس کی طرف اور اس کی عبادت و اطاعت کی طرف متوجہ ہوتا ہوں۔ یہ دو ایسے اصول ہیں جن کا اللہ تعالیٰ اپنی کتاب عظیم میں نہایت کثرت سے ذکر فرماتا ہے کیونکہ ان دونوں کے جمع ہونے سے بندہ مومن کو کمال حاصل ہوتا ہے اور ان دونوں کے نہ ہونے یا ان میں سے کسی ایک سے محروم ہونے سے بندہ مومن کمال سے محروم ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴾ (الفاتحۃ:1؍4)” ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد کے طلب گار ہیں۔“ اور فرمایا : ﴿ فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ ﴾(ھود :11؍123) ” اس کی عبادت کیجیے اور اس پر بھروسا کیجیے۔ “