سورة البقرة - آیت 33

قَالَ يَا آدَمُ أَنبِئْهُم بِأَسْمَائِهِمْ ۖ فَلَمَّا أَنبَأَهُم بِأَسْمَائِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم تم ان چیزوں کے نام بتاؤ جب آدم نے ان کو ان چیزوں کے نام بتا دیے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا میں نے تمہیں نہیں فرمایا تھا کہ زمین اور آسمانوں کے غیب میں ہی جانتا ہوں اور میرے علم میں ہے جو تم ظاہر کر رہے ہو اور جو تم چھپا رہے ہو

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پس اس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿يَا آدَمُ أَنبِئْهُم بِأَسْمَائِهِمْ﴾ اے آدم ! ان کو ان کے ناموں کی خبر دو“ یعنی ان تمام مسمیات کے اسماء کے بارے میں آگاہ کرو جن کو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے سامنے پیش کیا تھا اور فرشتے ان کے نام بتانے سے قاصر رہے۔ ﴿فَلَمَّا أَنبَأَهُم﴾” جب آدم علیہ السلام نے فرشتوں کو ان ناموں سے آگاہ کیا“ تو ان پر آدم کی فضیلت ظاہر اور اس کو خلیفہ بنانے میں باری تعالیٰ کی حکمت اور اس کا علم ثابت ہوگیا۔ ﴿ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾” اللہ نے فرمایا، کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی چھپی ہوئی چیزوں کو جانتا ہوں۔“ غیب سے مراد ہر وہ چیز ہے جو ہم سے اوجھل ہوا اور ہم اس کا مشاہدہ نہ کرسکتے ہوں۔ جب وہ غائب چیزوں کا علم رکھتا ہے تو مشہودات کو وہ بدرجہ اولیٰ جانتا ہے۔ ﴿  وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ﴾یعنی میں جانتا ہوں اس چیز کو جسے تم ظاہر کرتے ہو ﴿مَا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ﴾” اور جو کچھ تم چھپاتے ہو“۔