سورة ص - آیت 40

وَإِنَّ لَهُ عِندَنَا لَزُلْفَىٰ وَحُسْنَ مَآبٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

یقیناً اس کے لیے ہمارے ہاں تقرب کا مقام اور بہتر انجام ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

آپ یہ نہ خیال کیجیے کہ یہ تمام نعمتیں سلیمان علیہ السلام کو صرف دنیا ہی میں حاصل تھیں، آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں، بلکہ آخرت میں بھی ان کو خیر کثیر سے نوازا جائے گا۔اس لیے فرمایا : ﴿ وَإِنَّ لَهُ عِندَنَا لَزُلْفَىٰ وَحُسْنَ مَآبٍ﴾ ” اور بے شک ان کے لیے ہمارے ہاں قریب اور عمدہ مقام ہے۔“ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مقربین اور مکرمین کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مختلف انواع کی کرامات سے سرفراز فرمایا۔ فوائد حضرت داود اور سلیمان علیہ السلام کے قصے سے مندرجہ ذیل فوائد اور حکمتیں مستفاد ہوتی ہیں : 1۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے آپ سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کی خبریں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ آپ کی ہمت بندھاتا رہے اور آپ کو اطمینان قلب حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ ان کی عبادت، ان کے صبر کی شدت اور ان کی انابت کا ذکر فرماتا ہے تاکہ آپ میں آگے بڑھنے اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کا شوق اور اپنی قوم کی اذیت رسانی پر صبر کا جذبہ پیدا ہو۔ بنا بریں اس مقام پر جب اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی اذیت رسانی، آپ کے اور آپ کی دعوت کے بارے میں ان کی بد کلامی کا ذکر کیا تو آپ کو صبر کرنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی تلقین کی کہ آپ اس کے بندے داؤد علیہ السلام کو یاد کر کے اس سے تسلی حاصل کریں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ اپنی اطاعت میں استعمال ہونے والی قوت قلب اور قوت بدن کو پسند کرتا ہے اور اس کی مدح کرتا ہے، کیونکہ قوت کے ذریعے سے اطاعت الٰہی کے آثار، اس کی خوبی اور اس کی جو کثرت حاصل ہوتی ہے وہ کمزوری اور عدم قوت سے حاصل نہیں ہوتی، نیز آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ بندے کو چاہیے کہ وہ اسباب قوت کے حصول کی کوشش کرتا رہے اور نفس کو کمزور کرنے والی بے کاری اور سستی کی طرف مائل ہونے سے بچے۔ ٣۔ تمام امور میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور اس کی خاص مخلوق کا وصف ہے، اقتدا کرنے والوں کو چاہیے کہ ان کی اقتدا کریں اور اہل سلوک ان کی راہ پر گامزن ہوں۔ ﴿ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللّٰـهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ﴾ )الانعام : 6؍90) ” یہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت سے سرفراز فرمایا، لہٰذا ان کی ہدایت کی پیروی کیجیے۔ “ 4۔ ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی داؤد علیہ السلام کو بہت خوبصورت آواز سے نوازا تھا جس کے سبب سے ٹھوس پہاڑ اور پرندے جھوم اٹھتے تھے۔ جب آپ صبح و شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے تو پرندے اور پہاڑ بھی آپ کے ساتھ تسبیح بیان کرتے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندے پر سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ وہ اسے علم نافع عطا کرے، اسے دانائی اور لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے سرفراز کرے، جیسا کہ اس نے اپنے بندے حضرت داود علیہ السلام کو ان صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ 6۔ جب کبھی اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے بندوں اور اس کے انبیاء ورسل سے کوئی خلل واقع ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ انھیں آزمائش اور ابتلا میں مبتلا کرتا ہے جس سے یہ خلل زائل ہوجاتا ہے اور وہ پہلے حال سے بھی زیادہ کامل حال کی طرف لوٹ آتے ہیں جیسا کہ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو آزمائش پیش آئی۔ 7۔ انبیاء و مرسلین اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے میں خطا سے پاک اور معصوم ہوتے ہیں، کیونکہ اس وصف کے بغیر رسالت کا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا، لیکن کبھی کبھی طبیعت بشری کے تقاضوں کی بنا پر کسی معصیت کا اتکاب ہوجاتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم سے فوراً اس کا تدارک کردیتا ہے۔ 8۔ آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام اپنے غالب احوال میں، اپنے رب کی عبادت کے لیے اپنے محراب میں گوشہ نشین رہتے تھے، اسی لیے دونوں جھگڑنے والے اشخاص کو دیوار پھاند کر محراب میں آنا پڑا، کیونکہ حضرت داؤد علیہ السلام جب اپنے محراب میں چلے جاتے تو کوئی ان کے پاس نہ جاسکتا تھا۔ آپ کے پاس لوگوں کے بکثرت مقدمات آنے کے باوجود اپنا تمام وقت لوگوں کے لیے صرف نہیں کرتے تھے بلکہ انھوں نے اپنے لیے کچھ وقت مقرر کیا ہوا تھا جس میں خلوت نشیں ہو کر اپنے رب کی عبادت سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کرتے تھے۔ یہ عبادت تمام امور میں اخلاص کے لیے ان کی مدد کرتی تھی۔ 9۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے قصے سے مستنبط ہوتا ہے کہ حکام کے پاس حاضر ہونے میں ادب کو استعمال میں لایا جائے، کیونکہ مذکورہ بالا دونوں اشخاص جب اپنا جھگڑا لے کر حضرت داؤدعلیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو عام دروازے اور اس راستے سے آپ کے پاس نہیں گئے جو عام طور پر استعمال میں آتا تھا، اس لیے حضرت داؤد علیہ السلام ان کو دیکھ کر گھبرا گئے۔ یہ چیز آپ پر نہایت گراں گزری، ان کے خیال میں یہ صورت حال آپ کے لائق نہ تھی۔ 10۔ جھگڑے کے کسی فریق کی طرف سوئے ادبی اور اس کا نا گوار رویہ حاکم کو حق کے مطابق فیصلہ کرنے سے نہ روکے۔ 11۔ ان آیات مبارکہ سے حضرت داؤد علیہ السلام کے کمال حلم کا اظہار ہوتا ہے، کیونکہ جب مذکورہ بالا دونوں شخص آپ کی اجازت طلب کیے بغیر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے..... حالانکہ آپ وقت کے بادشاہ تھے..... تو آپ ان سے ناراض ہوئے نہ ان کو جھڑکا اور نہ انھیں کوئی زجرو تو بیخ ہی کی۔ 12۔ آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ مظلوم کے لیے ظالم کو اس قسم کے الفاظ سے مخاطب کرنا جائز ہے۔” تو نے مجھ پر ظلم کیا“” اے ظالم !“” اے مجھ پر زیادتی کرنے والے !“ وغیرہ اس کی دلیل یہ ہے کہ انھوں نے کہا تھا ﴿ خَصْمَانِ بَغَىٰ بَعْضُنَا عَلَىٰ بَعْضٍ﴾ (ص:38؍22) ”ہم مقدمے کے دو فریق ہیں جن میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی۔ “ 13۔ کوئی آدمی خواہ وہ کتنا ہی جلیل القدر اور صاحب علم کیوں نہ ہو، جب کوئی شخص خیر خواہی کرتے ہوئے اس کو نصیحت کرے تو اسے ناراض ہونا چاہیے نہ یہ نصیحت اس کو ناگوار گزرنی چاہیے، بلکہ شکر گزاری کے ساتھ اسے قبول کرلینا چاہیے، کیونکہ مقدمے کے فریقین نے حضرت داؤد علیہ السلام کو نصیحت کی تو آپ نے برا مانا نہ ناراض ہوئے اور نہ اس چیز نے آپ کو راہ حق سے ہٹایا، بلکہ آپ نے صریح حق کے ساتھ فیصلہ کیا۔ 15۔ اس قصے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ عزیز و اقارب اور دوستوں کا باہمی اختلاط، دنیاوی اور مالی تعلقات کی کثرت ان کے درمیان عداوت اور ایک دوسرے پر زیادتی کی موجب بنتی ہے، نیز یہ کہ اس قسم کی صورت حال سے صرف تقوٰی اور ایمان و عمل پر صبر ہی کے ذریعے سے بچا جاسکتا ہے اور یہی چیز لوگوں میں سب سے کم پائی جاتی ہے۔ 15۔ ان آیات کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ استغفار اور عبادت، خاص طور پر نماز گناہوں کو مٹا دیتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤدعلیہ السلام کی لغزش کی بخشش کو آپ کے استغفار اور سجود پر مترتب فرمایا۔ 16۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو اکرام و تکریم، اپنے قرب اور بہترین ثواب سے سرفراز فرمایا۔ ان کے بارے میں یہ نہ سمجھا جائے کہ ان کے ساتھ جو کچھ پیش آیا، اس کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے درجے میں کوئی کمی واقع ہوگئی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے مخلص بندوں پر کامل لطف و کرم ہے کہ جب وہ ان کی لغزشوں کو بخش دیتا ہے اور ان کے گناہوں کے اثرات کو زائل کردیتا ہے تو ان پر مترتب ہونے والے تمام آثار کو بھی زائل کردیتا ہے یہاں تک کہ ان اثرات کو بھی مٹا دیتا ہے جو مخلوق کے دلوں میں واقع ہوتے ہیں، کیونکہ جب مخلوق کو ان کے گناہ کا علم ہوتا ہے تو ان کے دلوں میں ان کا درجہ کم ہوجاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ مخلوق کے دلوں میں اس اثر کو زائل کردیتا ہے اور کریم و غفار کے لیے ایسا کرنا کوئی مشکل امر نہیں۔ 17۔ لوگوں کے درمیان فیصلے کرنا ایک دینی منصب ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں اور خاص بندوں کو مقرر فرمایا ہے، جسے یہ ذمہ داری سونپی جائے اسے حق کے ساتھ اور خواہشات نفس سے الگ ہو کر فیصلہ کرنا چاہیے۔ حق کے ساتھ فیصلے کرنا امور شرعیہ کے علم، محکوم بہ مقدمے کی صورت کے علم اور اس کو حکم شرعی میں داخل کرنے کی کیفیت کے علم کا تقاضا کرتا ہے، لہٰذا جو شخص ان میں سے کسی ایک کے علم سے بے بہرہ ہے وہ فیصلہ کرنے کے منصب کا اہل نہیں۔ اسے فیصلہ کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔ 18۔ حاکم کو چاہیے کہ وہ خواہش نفس سے بچے اور اس سے کنارہ کش رہے، کیونکہ نفس خوہشات سے خالی نہیں ہوتا، بلکہ وہ اپنے نفس سے مجاہدہ کرے تاکہ حق ہی اس کا مقصود و مطلوب ہو۔ فیصلہ کرتے وقت مقدمے کے فریقین میں سے کسی کے لیے محبت یا کسی کے لیے ناراضی دل سے نکال دے۔ 19۔ حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کے فضائل ہی میں سے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حضرت داؤد علیہ السلام پر احسان تھا کہ اس نے آپ کو سلیمان علیہ السلام سے نوازا۔ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندے پر سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ وہ اسے صالح اولاو عطا کرے اور اگر اولاد عالم فاضل ہو تو یہ نور علی نور ہے۔ 20۔ ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت سلیمان علیہ السلام کی مدح و ثنا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ نِّعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ﴾ ” بہت اچھا بندہ اور نہایت کثرت سے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والا ہے۔ “ 21۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے خیر کثیر اور ان پر احسان ہے کہ وہ انھیں صالح اعمال اور مکارم اخلاق کی توفیق سے سرفراز کرتا ہے، پھر ان اخلاق و اعمال کی بنا پر ان کی مدح و ثنا کرتا ہے، حالانکہ وہ خود ہی عطا کرنے والا ہے۔ 22۔ ان آیات کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی محبت کو ہر چیز کی محبت پر ترجیح دیتے تھے۔ 23۔ ان آیات سے یہ مستفاد ہوتا ہے کہ ہر وہ چیز جو بندۂ مومن کو اللہ تعالیٰ سے غافل کر کے اپنے اندر مشغول کرلے وہ مذموم اور منحوس ہے۔ بندۂ مومن کو چاہیے کہ وہ اس سے علیحدہ ہوجائے اور اس چیز کی طرف توجہ دے جو اس کے لیے زیادہ فائدہ مند ہے۔ 24۔ ان آیات کریمہ سے یہ مشہور قاعدہ مستفاد ہوتا ہے کہ ” جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی چیز ترک کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے اس سے بہتر عوض عطا کرتا ہے“ چنانچہ سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی محبت کو مقدم رکھتے ہوئے، سدھائے ہوئے تیز رفتار گھوڑوں کو ذبح کردیا، جو نفوس کو بہت محبوب ہوتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے بہتر عوض عطا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے نرم رفتار ہوا کو مسخر کردیا، جو آپ کے حکم سے اسی سمت میں جس کا آپ قصدو ارادہ کرتے، صبح کے وقت ایک مہینے کی راہ تک اور شام کے وقت ایک مہینے کی راہ تک چلتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے شیاطین کو مسخر کردیا جو ایسے کام کر سکتے تھے جنھیں کرنے پر انسان قادر نہ تھے۔ 25۔ سلیمان علیہ السلام ایک بادشاہ اور نبی تھے دو اپنی من مرضی کرسکتے تھے، لیکن انھوں نے عدل و انصاف کے سوا کسی چیز کا ارادہ نہ کیا۔ نبی عبد کا ارادہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہوتا ہے اس کا ہر فعل و ترک صرف اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہوتا ہے، جیسا کہ ہمارے نبی محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حال تھا اور یہ کامل ترین حال ہے۔