إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَّن تَبُورَ
جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں رزق دیا ہے اس میں علانیہ اور خفیہ طور پر خرچ کرتے ہیں یقیناً وہ ایک ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جس میں ہرگز نقصان نہیں ہے
﴿إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللّٰـهِ﴾ ” بے شک جو لوگ اللہ کی کتاب پڑھتے ہیں۔“ یعنی اس کے اوامر میں اس کی اطاعت کرتے ہیں، اس کے نواحی کو ترک کرتے ہیں، اس کی دی ہوئی خبروں کی تصدیق کر کے انہیں اپنا عقیدہ بناتے ہیں اور ان اقوال کو پسند نہیں کرتے جو اس کی مخالفت کرتے ہیں وہ اس کے معانی میں غو رو خوض اور ان کے فہم کے حصول کی خاطر اس کے الفاظ کی تلاوت کرتے ہیں۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے کتاب اللہ کی تلاوت کے عموم کو بیان کرنے کے بعد نماز کو مخصوص فرمایا، جو دین کا ستون، مسلمانوں کے لئے روشنی، ایمان کی میزان اور دعویٰ اسلام کی صداقت کی علامت ہے نیز اقارب، مساکین اور یتیموں پر زکوۃ، کفارات، نذر اور صدقات کے مال کو خرچ کرنے کو مخصوص فرمایا۔ ﴿سِرًّا وَعَلَانِيَةً﴾ ” کھلے چھپے“ تمام اوقات میں۔ ﴿يَرْجُونَ﴾ اس کے ذریعے سے وہ امید کرتے ہیں ﴿تِجَارَةً لَّن تَبُورَ﴾ ایسی تجارت کی، جو کبھی کساد کا شکار ہوگی نہ فساد کا، بلکہ وہ سب سے بڑی، عالی شان اور افضل ترین تجارت ہے۔ آگاہ رہو کہ وہ تجارت ان کے رب کی رضا، اس کے بے پایاں ثواب کا حصول، اس کی ناراضی اور عذاب سے نجات ہے۔ اس آیت کریمہ میں ان اہل ایمان کے اعمال میں اخلاص کی طرف اشارہ ہے نیز اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ ان اعمال میں ان کے مقاصد برے اور نیت فاسد نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ وہ جس چیز کی امید کرتے تھے وہ ان کو حاصل ہوگئی۔