سورة سبأ - آیت 46

قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُم بِوَاحِدَةٍ ۖ أَن تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنَىٰ وَفُرَادَىٰ ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا ۚ مَا بِصَاحِبِكُم مِّن جِنَّةٍ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ لَّكُم بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اے نبی ان سے فرمائیں کہ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ کے لیے تم اکیلے اکیلے اور دو دو مل کر سوچو کہ تمہارے صاحب میں کوئی پاگل پن ظاہر ہوتا ہے وہ تو سخت عذاب کے آنے سے پہلے تمہیں متنبہ کرنے والا ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿قُلْ﴾ اے رسول ! ان مکذبین و معاندین، تکذیب حق میں بھاگ دوڑ کرنے اور حق لانے والے کے بارے میں جرح وقدح کے در پے رہنے والوں سے کہہ دیجیے: ﴿إِنَّمَا أَعِظُكُم بِوَاحِدَةٍ﴾ ” میں تمہیں صرف ایک بات کی وصیت کرتا ہوں“ تمہیں اس کا مشورہ دیتا ہوں اور اس بارے میں تمہارے ساتھ خیر خواہی کرتاہوں۔ یہی انصاف پر مبنی طریقہ ہے، میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ تم میری بات مانو نہ یہ کہتا ہوں کہ تم بغیر کسی موجب کے اپنی بات چھوڑ دو، میں تم لوگوں سے صرف یہ کہتا ہوں: ﴿أَن تَقُومُوا لِلَّـهِ مَثْنَىٰ وَفُرَادَىٰ﴾ ” کہ تم اللہ کے لئے دو دو اور اکیلے اکیلے کھڑے ہوجاؤ۔“ یعنی ہمت، نشاط، اتباع صواب کے قصد اور اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص کے ساتھ، تحقیق و جستجو کی خاطر اکٹھے ہو کر اور اکیلے اکیلے کھڑے ہوجاؤ اور تم میں سے ہر شخص اپنے آپ کو مخاطب کرے۔ تم اکیلے اکیلے اور دو دو کھڑے ہو کر اپنی عقل و فکر کو استعمال کرو، اپنے رسول کے احوال میں غور و فکر کرو کہ کیا وہ مجنون ہے؟ کیا اس کے کلام اور ہئیت و اوصاف میں مجانین کی صفات پائی جاتی ہیں؟ یا وہ سچا نبی ہے اور آنے والے سخت عذاب کے ضرر سے تمہیں ڈراتا ہے؟ اگر وہ اس نصیحت کو قبول کر کے اس پر عمل کریں، تو دوسروں سے زیادہ ان پر واضح ہوجائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجنون نہیں ہیں، اس لئے کہ آپ کی ہئیت مجانین کی ہئیت کی مانند نہیں ہے۔ اس کے برعکس آپ کی ہئیت بہترین، آپ کی حرکات و سکنات جلیل ترین، ادب، سکینت، تواضع اور وقار کے اعتبار سے آپ کی تخلیق کامل ترین تھی۔ یہ صفات جلیلہ کسی نہایت عقل مند اور باوقار شخص ہی میں ہوسکتی ہیں۔ پھر وہ آپ کے فصیح و بلیغ کلام، آپ کے خوبصورت الفاظ اور آپ کے ان کلمات پر غور کریں جو دلوں کو امن و امان سے لبریز کردیتے ہیں، نفوس کا تزکیہ اور قلوب کی تطہیر کرتے ہیں، جو انسان کو مکارم اخلاق اور اچھی عادات کو اختیار کرنے پر آمادہ کرتے ہیں اور اس کے برعکس برے اخلاق اور رذیل عادات سے روکتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب گفتگو فرماتے ہیں تو ہیبت، جلال اور تعظیم کی بنا پر آنکھیں دیکھتی رہ جاتی ہیں۔ کیا یہ تمام چیزیں مجانین کی بکواس اور ان کی اخلاق سے گری ہوئی حرکتوں اور ان کے اس کلام سے مشابہت رکھتی ہیں، جو ان کے احوال سے مطابقت رکھتا ہے؟ ہر وہ شخص جو آپ کے احوال میں غور و فکر کرتا ہے اور یہ معلوم کرنے کا قصد رکھتا ہے کہ آیا آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں یا نہیں،، خواہ وہ اکیلا غور و فکر کرے یا کسی اور کے ساتھ مل کر، وہ یقین جازم کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچے گا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول برحق اور نبی صادق ہیں، خاص طور پر یہ مخاطبین، کیونکہ آپ ان کے ساتھ رہتے ہیں اور یہ لوگ آپ کو شروع سے لے کر آخر تک اچھی طرح جانتے ہیں۔ البتہ ایک اور مانع ہوسکتا ہے جو نفوس کو داعی حق کی آواز پر لبیک کہنے سے روکتا ہے اور وہ مانع یہ ہے کہ داعی، اپنی آواز پر لبیک کہنے والوں سے، اپنی دعوت کی اجرت کے طور پر مال اینٹھ لیتا ہو، اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس قسم کے ہتھکنڈوں سے اپنے رسول کی برأت بیان کرتے ہوئے فرمایا :