وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ بِأَنَّ لَهُم مِّنَ اللَّهِ فَضْلًا كَبِيرًا
جو لوگ آپ پر ایمان لائیں ان لوگوں کو بشارت دیں کہ ان کے لیے اللہ کی طرف سے بڑا فضل ہے
﴿وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ بِأَنَّ لَهُم مِّنَ اللّٰـهِ فَضْلًا كَبِيرًا﴾ ” آپ مومنوں کو خوش خبری سنا دیجیے کہ ان کے لئے اللہ کے طرف سے بہت بڑا فضل ہے۔“ اس جملے میں ان لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کو خوش خبری دی گئی ہے اور وہ اہل ایمان ہیں۔ جب کہیں ایمان کو مفرد طور پر ذکر کیا جائے تو اس میں عمل صالح داخل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان امور کا بھی ذکر کیا جن کی خوش خبری دی گئی ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا اور جلیل القدر فضل، جس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا مثلاً اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت، ہدایت، قلوب، گناہوں کی بخشش، تکلیفوں کا دور ہونا، رزق کی کثرت اور ارزنی، خوش کن نعمتوں کا حصول، اپنے رب کی رضا اور اس کے ثواب کے حصول میں کامیابی اور اس کی ناراضی اور اس کے عذاب سے نجات۔ یہ وہ امور ہیں جن کے ذکر سے عمل کرنے والوں کو نشاط حاصل ہوتا ہے، جن سے وہ صراط مستقیم پر گامزن ہونے میں مدد لیتے ہیں۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے۔ جیسا کہ یہ بھی اس کی حکمت ہے کہ وہ ترہیب کے مقام پر عقوبتوں کا ذکر کرتا ہے جو ان افعال پر مترتب ہوتی ہیں جن سے ڈرایا گیا ہے تاکہ یہ ترہیب ان امور سے باز رہنے میں مدد دے جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا ہے۔