سورة الأحزاب - آیت 20

يَحْسَبُونَ الْأَحْزَابَ لَمْ يَذْهَبُوا ۖ وَإِن يَأْتِ الْأَحْزَابُ يَوَدُّوا لَوْ أَنَّهُم بَادُونَ فِي الْأَعْرَابِ يَسْأَلُونَ عَنْ أَنبَائِكُمْ ۖ وَلَوْ كَانُوا فِيكُم مَّا قَاتَلُوا إِلَّا قَلِيلًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

وہ سمجھ رہے ہیں کہ حملہ آور لشکر ابھی نہیں گئے، اور اگر حملہ آور پھر آجائیں تو ان کا جی چاہتا ہے کہ اس موقع پر یہ کہیں صحرا میں بدوؤں کے درمیان جا بیٹھیں اور وہیں سے تمہارے حالات پوچھتے رہیں، اگر یہ تمہارے درمیان رہیں بھی تو لڑائی میں مشکل ہی حصہ لیں گے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ يَحْسَبُونَ الْأَحْزَابَ لَمْ يَذْهَبُوا ﴾ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ حملہ آور جتھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے خلاف جنگ کرنے کے لیے اکٹھے ہو کر آئے ہیں کہ وہ ان کا استیصال کیے بغیر واپس نہیں جائیں گے، مگر ان کی تمنائیں ناکام اور ان کے اندازے غلط ہوگئے۔ ﴿ وَإِن يَأْتِ الْأَحْزَابُ ﴾ اگر دوبارہ حملہ آور دشمن کے جتھے چڑھ دوڑیں ﴿ يَوَدُّوا لَوْ أَنَّهُم بَادُونَ فِي الْأَعْرَابِ يَسْأَلُونَ عَنْ أَنبَائِكُمْ ﴾ یعنی اگر دوسری مرتبہ فوجیں حملہ آور ہوں جیسے اس مرتبہ حملہ آور ہوئی تھیں تو یہ منافقین چاہتے ہیں کہ وہ اس وقت مدینہ کے اندر یا اس کے قرب و جوار میں نہ ہوں بلکہ وہ صحرا میں بدویوں کے ساتھ رہ رہے ہوں اور تمہاری خبر معلوم کر رہے ہوں اور تمہارے بارے میں پوچھ رہے ہوں کہ تم پر کیا گزری؟ پس ہلاکت ہے ان کے لیے اور دوری ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے۔ وہ ان لوگوں میں سے نہیں جن کی موجودگی بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ ﴿ وَلَوْ كَانُوا فِيكُم مَّا قَاتَلُوا إِلَّا قَلِيلًا ﴾ ” اور اگر وہ تمہارے درمیان ہوں تو بہت کم لڑائی کریں۔“ اس لیے ان کی پروا کرو نہ ان پر افسوس کرو۔