سورة الأحزاب - آیت 4

مَّا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِّن قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ ۚ وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَكُمُ اللَّائِي تُظَاهِرُونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَاتِكُمْ ۚ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ۚ ذَٰلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَاهِكُمْ ۖ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اللہ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں رکھے، نہ اس نے تمہاری ان بیویوں کو مائیں بنایا ہے جن سے تم ظِہَار کرتے ہو اور نہ اس نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا بنایا ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو تم اپنی زبان سے نکال دیتے ہو، مگر اللہ وہ فرماتا ہے جو حقیقت پر مبنی ہوتا ہے اور وہی صحیح راستے کی رہنمائی کرتا ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں پر عتاب کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ ایسے امور میں گفتگو نہ کریں جن کی کوئی حقیقت نہیں اور جن کو اللہ تعالیٰ نے مقرر نہیں فرمایا جیسا کہ وہ کہتے ہیں۔ یہ ان کی اپنی بات ہے جو جھوٹ اور باطل ہے، جس پر شرعی برائیاں مرتب ہوتی ہیں۔ یہ ہر معاملے میں گفتگو کرنے اور کسی چیز کے وقوع و وجود کے بارے میں، جسے اللہ تعالیٰ نے نہ کیا ہو، خبر دینے میں ایک عام قاعدہ ہے، مگر مذکورہ چیزوں کو ان کے کثرت وقوع اور ان کے بیان کرنے کی حاجت کی بنا پر مخصوص کیا ہے، لہٰذا فرمایا : ﴿ مَّا جَعَلَ اللّٰـهُ لِرَجُلٍ مِّن قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ﴾ ”اللہ نے کسی آدمی کے پہلو میں دو دل نہیں بنائے۔“ یہ صورت کبھی نہیں پائی جاتی۔ پس کسی کے بارے میں یہ کہنے سے بچو کہ اس کے پہلو میں دو دل ہیں ورنہ تم تخلیق الٰہی کے بارے میں جھوٹ کے مرتکب بنو گے۔ ﴿ وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَكُمُ اللَّائِي تُظَاهِرُونَ مِنْهُنَّ﴾ ” اور )اللہ نے( انہیں بنایا تمہاری عورتوں کو جن سے تم ظہار کرلیتے ہو“ یعنی تم میں سے کسی شخص کا اپنی بیوی سے یہ کہنا ” تو میرے لیے ایسے ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ یا، جیسے میری ماں“ تو نہیں بنایا اللہ تعالیٰ نے انہیں ﴿اأُمَّهَاتِكُمْ﴾ ” تمہاری مائیں۔“ تیری ماں تو وہ ہے جس نے تجھے جنم دیا، جو تیرے لیے تمام عورتوں سے بڑھ کر حرمت و تحریم کی حامل ہے اور تیری بیوی تیرے لیے سب سے زیادہ حلال عورت ہے، تب تو دو متناقض امور کو کیسے ایک دوسرے کے مشابہ قرار دے رہا ہے جبکہ یہ ہرگز جائز نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ الَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِنكُم مِّن نِّسَائِهِم مَّا هُنَّ أُمَّهَاتِهِمْ ۖ إِنْ أُمَّهَاتُهُمْ إِلَّا اللَّائِي وَلَدْنَهُمْ وَإِنَّهُمْ لَيَقُولُونَ مُنكَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُورًا﴾ )المجادلۃ: 58؍2( ” تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں کو ماں کہہ دیتے ہیں، وہ اس طرح ان کی مائیں نہیں بن جاتیں ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنم دیا، بلاشبہ وہ ایک جھوٹی اور بری بات کہتے ہیں۔ “ ﴿ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ﴾ ” اور تمہارے لے پالکوں کو تمہارے بیٹے نہیں بنایا۔“ ﴿ أَدْعِيَاءَ﴾ دَعِیٌّ کی جمع ہے اور اس لڑکے کو کہتے ہیں جس کے بارے میں کوئی شخص اپنا بیٹا ہونے کا دعویٰ کرے مگر وہ اس کا بیٹا نہ ہو، یا اسے متبنیٰ ہونے کی وجہ سے بیٹا کہ جائے، جیسا کہ ایام جاہلیت اور اسلام کی ابتدا میں یہ رواج موجود تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس رواج کو ختم کرنے کا ارادہ فرمایا، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے اس رواج کی برائی بیان کی اور واضح کیا کہ یہ باطل اور جھوٹ ہے۔ باطل اور جھوٹ کا اللہ تعالیٰ کی شریعت سے کوئی تعلق ہے نہ اللہ تعالیٰ کے بندے اس سے متصف ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو، جن کو تم بیٹا کہتے ہو یا وہ تمہارا بیٹا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تمہارا بیٹا نہیں بنایا۔ حقیقت میں تمہارے بیٹے وہ ہیں جو تم میں سے ہیں اور جن کو تم نے جنم دیا ہے اور رہے دوسرے لوگ جن کے بارے میں تم اپنے بیٹے ہونے کا دعویٰ کرتے ہو تو وہ تمہارے حقیقی بیٹوں کی مانند نہیں ہیں۔ ﴿ ذَٰلِكُمْ﴾ یہ بات جو تم منہ بولے بیٹوں کے بارے میں کہتے ہو کہ یہ فلاں کا بیٹا ہے، اس شخص کے لیے جو اس کے بیٹا ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، یا اس کا باپ فلاں ہے ﴿ قَوْلُكُم بِأَفْوَاهِكُمْ ﴾ ” تمہارے منہ کی باتیں ہیں۔“ یعنی یہ ایسی بات ہے کہ جس کی کوئی حقیقت ہے نہ معنی۔ ﴿ وَاللّٰـهُ يَقُولُ الْحَقَّ﴾ ” اور اللہ حق بات کہتا ہے۔“ یعنی جو صداقت اور یقین پر مبنی ہے اس لیے اس نے تمہیں اس کی اتباع کا حکم دیا ہے۔ اس کا قول حق اور اس کی شریعت حق ہے، تمام باطل اقوال و افعال کسی بھی لحاظ سے اس کی طرف منسوب کیے جاسکتے ہیں نہ اس کی ہدایت سے ان کا کوئی تعلق ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تو صرف صراط مستقیم اور صدق کے طریقوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اگر یہ اس کی مشیت کے مطابق واقع ہوا ہے تو اس کی مشیت اس کائنات میں جو بھی خیر و شر موجود ہے، سب کے لیے عام ہے۔