سورة آل عمران - آیت 59

إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اللہ تعالیٰ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال بالکل آدم کی مثال جیسی ہے جسے مٹی سے بنا کر کہہ دیا کہ ہوجا پس وہ ہوگیا

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

عیسائی عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں وہ عقیدہ رکھتے ہیں جو درست نہیں، ان کے پاس اس کی کوئی قوی یا ضعیف دلیل بھی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چونکہ آپ کا کوئی والد نہیں، اس لئے وہ حق رکھتے ہیں کہ انہیں اللہ کا بیٹا اور شریک تسلیم کیا جائے۔ یہ بات دلیل تو درکنار، شبہ بننے کے بھی قابل نہیں۔ کیونکہ عیسیٰ علیہ السلام کو اس طرح پیدا کرنے سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ اکیلا اللہ ہی تخلیق و تدبیر کا مالک ہے اور تمام اسباب اس کی مشیت وارادہ کے تابع ہیں۔ چنانچہ اس سے ان کے قول کی تردید ہی ہوتی ہے تائید نہیں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مخلوق کا کوئی فرد اللہ کے ساتھ کسی بھی لحاظ سے شریک بننے کا مستحق نہیں۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو بغیر باپ اور بغیر ماں کے پیدا کیا۔ اس سے لازم آتا ہے کہ عیسائی آدم علیہ السلام کے بارے میں بھی وہی عقیدہ رکھیں جو عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں رکھتے ہیں۔ اگر مسیح علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیدا کرنے کی وجہ سے اللہ کا بیٹا اور معبود قرار دیا جاسکتا ہے تو آدم علیہ السلام کے ماں اور باپ دونوں کے بغیر پیدا ہونے کی وجہ سے ان کے معبود ہونے کا بالا ولیٰ دعویٰ کرنا چاہیے۔ اس لئے اللہ نے فرمایا : ﴿ إِنََّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّـهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ﴾”یعنی ہم نے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں جو کچھ بیان فرمایا ہے حق اور اعلیٰ ترین سچائی ہے، کیونکہ یہ (رب) ” پالنے والے“ کی طرف سے ہے، آپ کے لئے اور آپ کی امت کے لئے خصوصی تربیت میں اس کے بیان کردہ یہ انبیاء کرام کے واقعات بھی ہیں۔